اگر آپ آج ڈرائیونگ کرتے ہوۓ کسی ٹریفک سگنل پر کچھ در کے لئے گاڑی روکیں تو کوئی نہ کوئی گداگر عورت ، مرد یا پھر کوئی بچہ آپ کی گاڑی کے شیشے سے منہ چپکاۓ بھیک کا سوال کرتا ہوا نظر آتا ہے . ان گداگروں کے بھی مختلف روپ ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر کوئی عورت ہے تو یہ بات لازم ہے کہ اس نے کندھے کے ساتھ ایک عدد بچہ لازمی اٹھایا ہوا ہوگا، مرد ہوگا تو اندھا ہوگا اور کسی نہ کسی نے اس کا ہاتھ تھما ہوا ہوگا اور یا اگر کوئی بچہ ہے تو وہ کوئی چیز بیچنے کے بہانے آپ سے امداد کا طالب ہوگا . کچھ بچے گاڑی کے رکتے ہی ہاتھ میں کپڑا اٹھائے بھاگ کر فوری طور پر گاڑی کا شیشہ صاف کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ہم اور آپ جیسے عام آدمی ان پر ترس کھا کر نیکی کی غرض سے ٥ روپے کا چمکتا سکہ ان کی ہتھیلی پر دھر دیتے ہیں . مگر یہ پیسے ان گداگروں کے حوالے کرتے ہوۓ کبھی ہم نے یہ نہیں سوچا ہوگا کے آخر یہ سب روپیہ جاتا کہاں ہے ؟ اس کا جواب خاصا لرزہ خیز اور دل دہلا دینے والا ہے اور حقیقت یہ ہے کے یہ نام نہاد گداگر یہ سارا جمع شدہ پیسہ اپنے پاس نہیں رکھتے ان سب کا باقاعدہ ایک مافیا اور ایک گروہ ہے جس کے سربراہان ٹھیکیدار کہلاتے ہیں یہ سب بھیک سے حاصل کردہ پیسہ ٹھیکیداروں کو دیا جاتا ہے اور وہ اس کو بعد میں سب گداگروں میں تقسیم کر دیتے ہیں
اب سوال یہ ہے کہ ایک گداگر دن میں کتنا پیسہ کما لیتا ہے ؟ اس کا جواب بھی خاصا حیران کن ہے یعنی کہ ایک گداگر ایک دن میں ٥٠٠ سے لیکر ٧٠٠ تک کما لیتا ہے اور بعض علاقوں میں تو یہ رقم ١٠٠٠ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے . یعنی ایک گداگر ایک عام مزدور سے بھی زیادہ کما لیتا ہے اور وہ بھی بغیر کوئی محنت کئے . ہے تو یہ عجیب بات مگر سچ ہے اور ایک ایسا کڑوا سچ جس کا سامنا ہم روز کرتے ہیں مگر پھر بھی اس کی حوصلہ افزائی سے باز نہیں آتے . یہ حقیقت ہے کہ نیکیوں کے حصول کے سلسلے میں ہم لوگ خود ان گداگروں کو بھیک دے کر ان کی افزائش کر رہے ہیں . آج ہم کہیں بھی چلے جائیں چاہے بازار ہو یا گلی ، محلہ ہو یا پارک ،مسجد ہو یا عید گاہ کوئی بھی جگہ اس بھکاری مافیا سے پاک نہیں . یہ پورا ایک منظم گروہ ہوتا ہے جس میں ملازمت کرنے والے چھوٹے بچے ہوتے ہیں یا پھر نوجوان عورتیں جو سارا دن بھیک کی آڑ میں لوگوں کو دعوت گناہ بھی دیتی ہیں اور شام کے وقت یہ سب لوگ اپنی اپنی محنت کی کمائی کا حساب کرتے ہیں جس کسی کی کمائی مقرر کردہ مقدار سے کم ہو اس کو ٹھیکیدار کی طرف سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تا کہ آیندہ وہ اس طرح کی غلطی کا اعادہ نہ کر سکے
جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا گداگر خواتین اپنے کندھے پر ایک بچے کو لازمی اٹھائے ہوتی ہیں تا کہ بھولی بھالی عوام کے دل میں ہمدردی کا تاثر مزید گہرا ہو سکے مگر ایک بات جس پر آپ نے شاید ہی کبھی غور کیا ہو کہ موسم سردی کا ہو یا سخت گرمی کا یہ بچے ہمیشہ سوۓ ہوۓ ہی نظر ہی آتے ہیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بھکاری خاتون نے کسی جاگتے ہوۓ بچے کو اٹھایا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کو معمولی مقدار میں نشہ آور ادویات دی جاتی ہیں تا کہ یہ بچے تنگ کرنے کی بجاۓ سارا دن غنودگی کے عالم میں سوۓ رہیں اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ عورتیں اپنے بچوں کو روز روز یہ مضر صحت ادویہ دینے کو تیار کیسے ہو جاتی ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچے ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ کراۓ پر حاصل کئے گئے ہوتے ہیں . یہ ایک انتہائی المناک بات ہے کہ ہمارے ملک میں بیروزگاری اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ بھوک سے ستاۓ غریب لوگ اپنی اولاد کو اس طرح کے مقصد کے لئے کراۓ پر دینے پر مجبور ہیں مگر حکومت اس معاملے پر خاموش ہے ویسے تو اس سلسلے میں ایک قانون پاس کیا گیا تھا جس کے تحت بھیک کو کاروبار کی شکل دینا جرم ہے مگر ہمیشہ کی طرح اس قانون کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں . عوام اس بارے میں پریشان ہیں کہ کس کو بھیک دیں کس کو نہیں اس طرح کے پروفیشنل گداگروں کی وجہ سے اکثر حقدار لوگ بھی امداد سے محروم رہ جاتے ہیں . یہ لوگ گداگر نہیں یہ تو بہت بہترین قسم کے اداکار ہیں جو لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکلوانے کے لئے نت نئی اداکاری کرتے ہیں اور روز نیا روپ بدلتے ہیں . حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور کوئی مناسب اقدامات کرنے چاہیے تا کہ بھکاری مافیا کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور ان کی وجہ سے کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو
***********************************************************************************
Click Here To Read More Of My Blogs
Written By.