راتوں کو جاگنا ۔ اگر شیخ کہلانے کے لئے ہو تو اس سے کتا اچھا کہ وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔ اپنے مالک کے دروازے پر نوکری کے فرائض ادا کرنے کے لئَ جاگتا ہے ۔ وہ حق خدمت ادا کرنے کے لئے جگتا ہے ۔ مالک کے دروازے سے مالک کی حمت سے اسے جو رزق ، جو نعمت اور نوازشیں ہوتی ہیں اور صرف اس کے کرم سے ہوتی ہیں اس کے شکرانے میں جاگاتا ہے ۔ شیخ کہلوانے کے لئے نہیں جاگتا اسے یہ بھی خبر ہوتی ہے کہ یہ مالک کا کرم ہے کہ اس نے صرف اپنی مہربانی سے اس کے لئے اپنی عطا کے اور گھر کے دروازے کھول رکھے ہیں ۔ ورنہ نجس اور ناپاک چیزوں کو کون پسند کرتا ہے۔ کون پیار کرتا ہے۔
یایھا المزمل" اے چادر میں لپٹنے والے۔
حسین و جمیل اور لذت بھرے الفاظ سے محبوب سے خطاب یہ اللہ تعالی کی کمال شفقت و محبت کا اظہار ہے ۔ چادر اوڑھنا محبوب کی سنت ہے اور پھر اس چادر کو پاک صاف رکھنا ، تقاضاء ادب ہے ۔ سنت محبوب اور اس کا ادب اس کی پاکیزگی اور تقدس ، محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے محب رب زولکرم والا حسان کے کرم کو کرم و احسان فرمانے پر آمادہ کرتا ہے۔ جلوت و خلوت میں یکسانگی ، کریم کے کرم کی توجہ دینے پر اکساتی ہے ۔ دن بھر صرف اس کی خاطر مصروف رہنے والا صرف اسی کے اشارہ کے مطابق بولنے والا جب مخلوق ، آغوش نیند میں چلی جائے اس وقت اپنے ہی محبوب کے حضوراپنی شب اس کی نذر کر دینے والا جب یتنی دیر کھڑا رہے کہ ہر دیکھنے والے کو صاف نظر آجائے کہ پاوں ورم آلود ہو جاتے ہیں تو مالک ازراہ شفقت و محبوب کیوں نہ کہہ اٹھے ۔ کہ قم الیل الا قلیلا نصفھ اوانقص منھ قلیلا رات کو قیام فرمایئں مگر تھوڑا نصف شب یا اس سے بھی کچھ کم کر لیجیئے۔
سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے معمولات میں یہ بات شامل تھی کہ رات کے ابتدائی حصہ میں آرام فرماتے اورآ خری حصہ میں قیام فرماتے ۔ عشاء کی نماز کی ادائیگی کے بعد جلد سو جانے والے ہی رات کے آخری حصہ میں اٹھھ سکتے ہیں ۔ رات خلوت ہے اور دن جلوت ہے ۔ خلوت کی حقیقت رات ہے اور جلوت کی حقیقت دن ہے ۔ اور خلوت روشن ہو ، بیدار ہو، جوان ہو ، تازہ ہو تو جلوت بھی روشن و بیدار ہو ہی جاتی ہے ۔
آدھی رات کے بعد شب بیداری کے لئے اٹھنا ، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اضافی مرغوب و محبوب طریقوں میں سے تھا ۔ اس آیۃ مبارکہ میں اس کے پیش نظر نماز تہجد کے وقت کا تعین کیا گیا ہے۔ نماز تہجد کا وقت رات کا آخری نصف حصہ ہے ۔ یا اس سے کچھھ کم۔
"یا اس پر کچھھ بڑھاو اور قرآن خوب ٹھر ٹھر کر پڑھو۔"
شب خیزی ، شب بیداری ، چونکہ سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسندیدہ عمل ہے ۔ اس لئے اللہ تعالی کے نذدیک بھی ااس کا وقت رات کا آخری نصف حصہ ہے ۔ ہاں اس میں کچھھ وقت بڑھا بھی لیا جائے تو راحت و فرحت کا باعث ہوگا ۔ البتہ یہ بات ذہن میں محفوظ کر لینی چاہیئے " آدھی رات یا اس سے کچھھ کم کرو " کہ ارشاد کی تعمیل میں قیام لیل کو بڑھا کر عشاء تک لے جانے کا معنی نہیں ۔
شب بیداری میں آہ زاری کی نعمت بھی اس کا انعام ہے ۔ اگر مالک اس کا انعام کا کسی کو مستحق بنالے تو بڑی بختی ہے سحر خیزی اور نماز تہجد کے ساتھ تر تیل قرآن پاک ، اسرار و رموز کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے ۔ تر تیل کے ساتھ پڑھنے کا مفہوم یہ ہے کہ ٹھر ٹھڑ کر آرام سے پڑھا جائے س کے وقوف و رموز کا ان کے تعین کے ساتھھ خیال رکھا جائے ۔ اگر حسن صوت یعنی اچھی آواز کا حسن موجود ہو ۔ تو زینو القران باصواتھا پر عمل اللہ تعا لی کی خوشنودی کا باعث بنتا ہے قرآن پاک ، ادب سے لحن داودی سے ٹھر ٹھر کر اور اللہ کے حکم کی تعمیل کی نیت سے پڑھا جائے ۔ احکام الہی کی شان قدر اور منزلت کو پیش نظر رکھا جائے ۔ تو تلاوت قرآن پاک کا ہی ثمر ہی کچھھ اور ہے ۔