قرآن اور انسانی نشووارتقاء کا نظریہ

Posted on at


ولقد خلقنا الانسان من سلله من طین- ثم جعلنه نطفه فی قرار مکین- ثم خلقنا النطفه علقه فخلقنا العلقه مضغه فخلقنا المضغه عظما فکسونا العظم لحمائم ثم انشانه خلقا اخر فتبارک الله احسن الخالقین- ثم انکم بعد ذلک لمیتون- ثم انکم یوم القیمه تبعثون- "ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا- پھر اسے محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا- پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں- پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کھڑا کیا- پس بڑا ہی با برکت ہے اللہ - سب کاریگروں سے اچھا کاریگر- پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے- پھر قیامت کے روز یقیناً تم اٹھاۓ جاؤ گے" مومنون: ١٣'١٢



ولقد خلقنا الانسان من سلله من طین، یہ نفس انسان کی نشوونما کے مراحل کی طرف اشارہ کرتی ہے مگر ان کا تعیین نہیں کرتی صرف یہ بتاتی ہے کہ انسان ایک تسلسل کے ساتھ کچھ مراحل سے گزر کر مٹی سے انسان بنا ہے- مٹی صرر اول یا پہلا مرحلہ ہے اور انسان آخری مرحلہ ہے- یہ حقیقت ہمیں قرآن سے معلوم ہوتی ہے ہم ان سائنٹفک نظریات میں اس کی مطابقت نہیں تلاش کرتے جو انسان کی نشوونما یا زندگی کے آغاز سے بحث کرتے ہیں
قرآن یہ حقیقت اس لئے بیان کرتا ہے کہ اسے خدا کی صنعت پر اور اس عظیم تبدیلی پر غوروتدبر کا مقام بناۓ جو مٹی اور اس انسان کے درمیاں پائی جاتی ہے، جس نے اسی مٹی سے سلسلہ وار نشوونما پائی ہے- قرآن اس سلسلہ وار عمل کی تفصیل سے نہیں تعرض کرتا کیوں کہ اس کے سامنے جو عظیم مقاصد ہیں، اس کے لئے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے- جہاں تک سائنٹفکنظریات کا تعلق ہے وہ نشووارتقاء کا ایک متعین زینہ در زینہ عمل سامنے لانے اور اسے ثابت کرنے کی کوشسش کرتے ہیں تاکہ انسان اور مٹی کے درمیان کے سلسلے کی مختلف کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑ سکیں- اس کوشسش میں یہ سائنٹفک نظریات کامیاب بھی ہو سکتے ہیں- جب کہ قرآن اس کی تفصیلات کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے- ہمارے لئے یہ مناسب نہ ہوگا کہ دو چیزوں کے درمیان خلط بحث کریں- ایک چیز وہ ثابت شدہ حقیقت ہے جس کو قرآن بیان کرتا ہے- یعنی سلسلہ وار عمل اور دوسری چیز وہ جس کی --- کوشسش سائنس کے نظریات کر رہے ہیں یعنی سلسلہ وار عمل کی کڑیوں کی دریافت - یہی وہ کوشسش ہے جس کے نتائج صحیح بھی ہو سکتے ہیں وو غلط بھی- ایک بات آج صحیح قرار پائی ہے اور کل کو انسانی تحقیق کے طریقوں اور تفتیش کے ذرائع کے آگے بڑھنے کے ساتھ غلط قرار پا سکتی ہے
کبھی کبھی قرآن اسی حقیقت کا ذکر اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں کرتا ہے کہ
بدا خلق الانسان من طین "الله نے انسان کو بنانے کی ابتدا مٹی ے کی-" اور ان مراحل کی طرف اشارہ نہیں کرتا جن سے انسان گزرا ہے- اس باب میں ہمیں اس نص کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو زیادہ تفصیلی بیان سامنے لاتی ہو- وہ بیان ہے جو بتاتا ہے کہ "انسان مٹی کے جوہر" سے بنا ہے، معلوم ہوا کہ مذکورہ بالانص اپنے مخصوص سیاق کی رعایت سے ان مراحل کا ذکر مختصر ہے
جہاں تک اس بات کا جواب ہے کہ انسان نے مٹی سے سلسلہ وار نشوونما کس طرح پائی تو جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا قرآن کے بارے میں اس لئے خاموش ہے کہ یہ بتانا اس کے مقاصد میں داخل نہیں ہے- ہو سکتا ہے اس سلسلے کی کڑیاں اسی طور پر ہوں جیسا کے سائنس کے نظریات بتاتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ مختلف ہوں- ہو سکتا ہے درمیانی مراحل کو نوعیت اور ان کے تکمیل پانے کی کیفیت کچھ اور ہو جو ابھی دریافت نہ کی جا سکی ہو اور اس کے اسباب و عوامل بھی دوسرے ہوں جن کا ابھی تک آدمی سراغ نہ لگا سکا ہو- لیکن قرآن کا تصور انسان اور ان سائنٹفک نظریات کا تصور انسان کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن انسان کو مقام بلند کا حامل اور معزز قرار دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس میں خدا کی روح پھونکی گئی ہے اور اسی روح پھونکنے کے عمل نے اسے مٹی کے جوہر سے انسان بنایا ہے اور اسے وہ خصوصیات عطا کی ہیں جن کے طفیل وہ انسان بنا اور حیوان سے مختلف ہوا- واللہ اصدق القائلیں، یہ نوع انسانی کے آغاز کے بارے میں تھا کہ وہ مٹی کے جوہر سے ہوا- جہاں تک ایسا ہو چکنے کے بعد ایک فرد انسانی کی نشوونما کا تعلق ہے اس کی رہ دوسری ہے
فکسونا العظام لحما
جنین کے بارے میں قرآن نے جن حقائق سے پردہ اٹھایا ہے ان کو پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کیونکہ ان حقائق کی تفصیل زمانہ حال مین جنین کے مراحل کی تشریح کرنے والے علم کی ترقی کے بعد سامنے ائی ہے یعنی یہ بات کہ ہڈی کے خلیے گوشت کے خلیوں سے جدا اور مختلف ہوتے ہیں- اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنین میں پہلے ہڈی کے خلئے تشکیل پاتے ہیں- ہڈی کے خلیوں کے نمودار ہونے اور جنین کا ڈھانچا مکمل ہونے سے پہلے گوشت کا ایک خلیہ بھی نہیں پایا جاتا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو نص قرانی " فخلقنا المضغه عظما فکسونا العظم لحما" میں بیان فرمایا گیا ہے



ثم انشانه خلقا اخر، یہ ہے وہ انسان جو امتیازی خصوصیات کا حامل ہے کیونکہ انسان کا جنین اپنے جسمانی مراحل میں حیوانی جنین کے مشابہ ہوتا ہے لیکن انسان کا جنین ایک اور ہی مخلوق بن جاتا ہے وہ ممتاز مخلوق جو ارتقاء کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ حیوان کا جنین حیوان ہی کے درجہ میں رہ جاتا ہے اور ترقی کرنے اور کمال تک پہنچنے کی ان خصوصیات سے محروم رہتا ہے جو انسانی جنین کا مابہ الامتیاز ہیں
انسانی جنین میں کچھ ایسی خصوصیات رکھی گئی ہیں جن کے طفیل وہ بعد کے مراحل میں انسانی رہ اختیار کر لیتا ہے اور وہ جنینی مراحل کے آخر میں "ایک دوسری مخلوق" بن جاتا ہے- جب کہ حیوانی جنین مرحلہ ہی میں رہ جاتا ہے کیونکہ اسے یہ خصوصیات نہیں دی گئی ہیں- حیوان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے حیوانی مرتبے سے تجاوز کر کے مرحلہ میکانکی طور پر انسان کے مرتبہ تک پہنچ جائے جیسا کہ مادی نظریات کا کہنا ہے



حیوان اور انسان دو بلکل مخلتف انواع ہیں جن میں خدائی روح پھونکنے کے سبب فرق ہو گیا جس کے طفیل مٹی کا جوہر انسان بنا- دونوں کے درمیان فرق کی وجہ اس کا پھونکا جانا بھی ہے جس کے طفیل کچھ ایسی خصوصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے انسانی جنین کو ایک دوسری مخلوق بنا کر نکالا- انسان اور حیوان (جسمانی) بناوٹ میں ایک دوسرے کے مشابہ رہتے ہیں- پھر حیوان حیوان ہی رہ جاتا ہے، اس مقام سے آگے نہیں بڑھتا جب کے انسان ایک دوسری مخلوق بن جاتا ہے جس میں اس کمال تک پہنچنے کی صلاحیت ہے، جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے- ایسا ان امتیازی خصوصیات کے طفیل ہی ممکن ہوا جنھیں الله نے اس ایک بامقصد تدبیر کے تحت عطا فرمایا ہے نہ کہ نوع حیوانی سے میکانکی طور پر مرحلہ وار تبدیلیوں کے ذریعے نوع انسانی میں بدل جانے کے سبب




About the author

160