آسمان سے آگ برس رہی ہے، زمین سے خون کے فوارے پھوٹ رہے ہیں، بارود کے پھٹنے سے گلشن ویران ہو رہے ہیں ، بستے بساتے گھر مٹ گئے ہیں، ہنستے اور جھومتے چمن اُجڑ گئے ہیں، ننھے اورمعصوم پھول بکھر گئے ہیں، نوخیز کلیاں مسلی گئی ہیں، ماو¿ں کے لال خون آلود ہو گئے ہیں،باپوں کے ارمان لُٹ گئے ہیں، بیویوں کے سہاگ چھن گئے ہیں، ہر طرف غموں اور آہوں کے نوحے ہیں، چہار طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں، زخموں سے انسان تڑپ اور سسک رہے ہیں، گھر گھر سے جنازے اُٹھ رہے ہیں، پانی اور خوراک کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں، طیاروں سے بموں کی برسات ہو رہی ہے، ٹینکوںاور توپوں کے دہانے شعلے اُگل رہے ہیں، موت اپنا خونی جبڑ ا کھولے رقص رہی ہے، غزہ جل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ غزہ سلگ رہا ہے۔۔۔۔ ۔۔غزہ ڈوب رہا ہے۔۔۔۔ ۔۔غزہ تڑپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔مسلمانوں کے قبلہ اول سے خون رس رہا ہے، وہ بہادر اور غیر ت مند نبی کے امتیوں کو بلا رہا ہے، انہیں مدد کے لیے پکار رہا ہے ، اپنے چاروں طرف خونی مناظر کو دیکھ کر آنسو بہا رہا ہے، مسلمانوںپہ ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر وہ کانپ اُٹھا ہے، اور چیخ چیخ کر پوچھ رہا ہے مسلمانوں تم تو اتنے کمزور نہ تھے، تمہاری مائیں بہنیں تو اتنی غیر محفوظ نہ تھیں، تمہارے بچے تو اتنے بے سہارا نہ تھے، تمہارے جوان تو اتنے بے بس نہ تھے، تمہارے بوڑھے تو اتنے لا چار نہ تھے، کہا ں گئی تمہاری وہ غیرت جس نے روم و فارس کے تخت اُلٹے تھے؟ کہا ں گئی وہ جرات جس نے قیصر و کسریٰ کے تاج اُچھالے تھے؟کہاں گئی تمہاری وہ استقامت جس نے سمندر وں کے سینے چیر ے تھے؟ کہاں گئی تمہاری وہ شجاعت جس نے دشت و صحرا روندے تھے؟کہا ں گئی تمہاری وہ ایمانی پختگی جس نے پہاڑ اور جنگل مسخر کیے تھے؟کہا ں گئی تمہاری وہ عزت جس کی خاطر تم دیبل و ملتا ن پہ چڑھ دوڑے تھے؟مسجد اقصیٰ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ امت کے بیٹوں کو آنے والے طوفا ن سے ٹکرانے کے لئے جھنجھوڑ رہی ہے۔ بد مست اسرائیل اپنے تحفظ کا بہا نہ بنا کر نہتے اور معصوم فلسطینیوں پہ ٹوٹ پڑا ہے، ڈیڑ ھ ارب مسلمانوں اور 60خود مختار ریاستوں کی سیاسی و عسکری قیادت کی عزت و غیرت کو للکا ر کر مسلمانوں کی مسجدوں اورگھروںمیں گھس گیا ہے، امریکہ کا بغل بچہ عالمی دباو¿ اور بین الاقوامی قوانین کو جوتے کی نوک پہ رکھ کر غزہ کو جنگ کی بھٹی میں جھونگ چکا ہے، کہیں یہ گنبد صخراکے ڈھانے کا منصوبہ تو نہیں؟کیوں کہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کر کے اس جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر صہیونی طاقتوں کا پرانا خواب ہے، جس کے لئے صہیونی حکمران بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں، فلسطینی مسلمانوں کو اپنے مقدس مقاما ت کے تحفظ اور بقا کے حوالے سے مکمل مایوسی میں مبتلا کرنا اس حکمت عملی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ وقتاًفوقتاًمسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنا تا رہا ہے، اس سلسلے میں موجودہ جارحیت آج سے 20سال قبل ہونے والی انتہائی سفاکانہ واردات کا دوسرا پارٹ ہے، 25فروری1994ءکو ماہ رمضان میں امریکہ میں پیدا ہونے والے یہودی انتہا پسند "بروچ گولڈ سٹین"نے فلسین کے شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی پر حملہ کیا تھا ، وہاں موجو د 800مسلمانوںپر نما ز کی حالت میں اندھا دھند گولیاں برسائیں جس سے 30مسلمان شہید اور 125زخمی ہو ئے تھے اور جب وہ جان بچانے کے لئے مسجد سے نکلنے لگے تو اسرائیلی سپاہیوں نے مزید 24مسلمانوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا تھا۔تازہ ترین حملوں میں بھی اسرائیل کا زیادہ تر شکا ر مسجدیں ہوئیں، اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کےلئے فلسطینی مسلمانوں کو کمزور اور بزدل بنا رہا ہے،ان کی افرادی قوت کو ختم کر رہا ہے، سات سال سے غزہ کی مکمل نا کہ بندی کی گئی ہے، پانی اور خوراک کے ذخائر تباہ کر رہا ہے، کاروباری مراکز، ادارے اور ہسپتا ل مسمار کر رہا ہے، جس کی وجہ سے غزہ کے باسی انتہائی ابتر معاشی حالات سے گزر رہے ہی، یہودی درندے آئے روز نو جوانوں کو غائب کر کے اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھا رہا ہے، جب بھی کوئی واقعہ ہو تا تو عرب لیگ ، او آئی سی اور مسلمان حکمران جان خلاصی کے لئے ایک عام روایتی سا بیا ن دے کر خانہ پُر کر لیتے ہیں، اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیںاوپر سے مذمت اور اندرون خانہ پیٹھ پہ تھپکیاں دے دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا غرور و جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے، کہیں سے بھی اس کے خلاف آواز اُٹھے تو اسے غلط پروپیگنڈہ کر کے دُنیا کے سامنے ذلیل کر دیاجاتا ہے، صہیونی جارحیت کے حوالے سے عالمی طاقتو ں کا کردا ر انتہائی مذموم ، گھناو¿نا اور مجرمانہ ہے، ہر بندہ جانتا ہے کہ اسرائیل امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیا روں اور عسکری ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر نہتے فلسطینیوں کا خون پانی کی طرح بہا رہا ہے، یہ حالا ت دیکھ کر لگ رہا ہے کہ دنیا میں انصاف اور قانوں نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں،یہا ں انسانی حقوق ، بین المذاہب ہم آہنگی ، مذہبی رواداری اور انصاف و آزاد ی کی تما م باتیں محض ڈھونک اور تما شا ہیں ، جنہیں عالمی استعمار اپنے مخصوص نظریا ت و مقاصد کو کرہ ارض کے باشندوںپر جبر اًمسلط کرنے کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اگر کہیں کسی غیر مسلم کو کوئی کانٹا بھی چُبھے تو اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور دنیا جہاں کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف نکل آتی ہیں اور پھر اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کے نام پر من مانے اور ناجائز مطالبا ت تسلیم کر وائے جاتے ہیں، پتا نہیں مسلمانوں کے معا ملے میں یہ کیوں چادر تان کے سوجا تے ہیں؟ کیا وہ انسان اور اس دُنیا کی مخلوق نہیں؟ اس بار تو حد ہی کر دی کہ بجائے اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دینے کے اُلٹا اس کی کمر ٹھونکی جا رہی ہے کہ وہ اپنے تحفظ کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ کیا اپنے تحفظ کے لئے بے گنا ہ لو گوں کو آگ اور خون میں نہلا نا ضروری ہے؟اس حملے سے اسرائیل کا مکروہ چہرہ اور بھی کھل کر دنیا کے سامنے آگیا ہے۔غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے ایک ہفتہ کے دوران 200سے زائد فلسطینی مسلمان شہید اور 200سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔جرمن جرید ے کے مطابق بغیر پائلٹ والے اسرائیلی طیارے مہلک ہتھیا روں سے لیس بموں اور راکٹوں سے غزہ اور ملحقہ علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ غزہ میں زخمیوں کو طبی امداد دینے والے ناروے کے ڈاکٹر "میڈز گلبرٹ "اور دیگر ڈاکٹروں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی فوج اپنے حملوں میں عالمی سطح پر ممنوعہ ہتھیا ر استعمال کررہی ہے ۔ علاوہ ازیںفلسطین کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف حملوں میں غزہ میں اسرائیل ممنوعہ ہتھیا روں اور ڈی آئی ایم ای (ڈینس الرٹ میٹل ایکسپلوسو)سے نشانہ بنا رہا ہے ، یہ انتہائی زہر یلے اور مہلک اثرات کے حامل بارودی مواد ہیں۔ یہ گرنے کے بعد پھٹ کر ایک زہر یلی گیس اور دھوئیں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ایک چھرا لگنے سے انسانی جسم انتہائی خوفنا ک طریقے سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جا تا ہے ، زخمیوں کے جسموں پر لگنے والے بارودی مواد کی نوعیت ڈاکٹروں کے لئے غیر معروف ہے اور ان سے نکلنے والے ذرات ایکس رے اور دیگر طبی آلا ت کے ذریعے نہیں دکھائی دیتے جس کی وجہ سے زخمیوں کا علاج نہ ہو نے کے برابر ہے۔ یہ ہتھیا ر اسرائیل کے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں اسی وجہ سے اسلحہ کے ماہرین ان ہتھیا روں کی شناخت بتا نے سے معذور ہیں۔ اتنے سخت ظلم و تشدد پر اقوام متحدہ ، امریکہ اور عالمی برادری کا رویہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے ۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فون کر کے اسرائیلی وزیر اعظم کو کھلی چھوٹ دی کہ حماس سے بچاو¿ کے لئے اسرائیل کو اپنے تحفظ کا حق حاصل ہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ دونوں فریق محاذ آرائی کے بجائے بحران کے خاتمے کے لئے فوری اقدامات کر یں۔ وہ اپنے بیان میں فلسطین اور اسرائیل دونوں کو برابری کی سطح پر لے آئے ہیں حالانکہ ان حملوں میں ایک اسرائیلی بھی ہلا ک نہیں ہو ا ۔ کس قدر مایوسانہ بیانات ہیں۔ کیا ایسے بیانات کے بعد بھی ان عالمی امن اور انصاف کے ٹھیکیداروں سے ثالثی کی امید کی جاسکتی ہے؟لیکن کیا کریںان لوگوں نے تو ایسے بیانات دینے ہی ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ مسلمان کبھی نہیں اُٹھیں گے۔ اور اُٹھیں بھی کیسے ، وہ تو خود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔وہ ایک دوسرے کے پاو¿ں کھینچ رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی لگائے ہوئے زخم چاٹ رہے ہیں۔ وہ اپنی ہی بھڑکائی آگ میں جل رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی ہا تھوں اپنا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کسی مسلمان حکمران میںاتنی غیرت نہیں کہ وہ آکے ہمیں للکار ے اور اپنے بھائیوں کو ہم سے آزاد کر وائے۔انہیں معلوم ہے کہ یہ صرف زبانی باتیں ہی کر سکتے ہیں جس سے کون سی قیامت آجائے گی۔ ان نازک حالات میں برہنہ لاشوں ، جھلستے بچوں اور بے حجاب ہوتی بہنوں کی خاطر امت مسلمہ کو بالعموم اور مسلمان حکمرانوں کو بالخصوص غفلت کی چادر اُکھاڑنی پڑے گی۔ تمام ممالک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر کے اس کے ساتھ سیاسی و معاشرتی بائیکاٹ کر نا ہو گا ۔ تمام اسلامی سربراہان کو آپس کے اختلافات مٹا کر یک آواز اور یک جان ہو کر اقوام متحدہ اور عالمی برادری پرزور ڈالنا ہو گاس کہ وہ جنگ بندی کروائیں اور عالمی قوانین کو توڑنے کی پاداش میں اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کو اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینی عوام کی مدد کے لئے فوری اقدامات اُٹھانے ہو ں گے۔ اپنی اہمیت اور فرض کا احساس کر تے ہوئے انہیں جرات مندانہ موقف اپنا نا ہو گا ، آخر ہم اسلام کے قلعے اورمسلمانوں کی امید کہلا نے والے ملک پاکستان کے باسی جو ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ انبیاءکی سرزمین کے باشندوں کے ساتھ تعاون کا یہ سنہری موقع ضائع ہو جائے اور پھر دنیا و آ خرت میں سوائے پچھتا نے اور ہاتھ ملنے کے کچھ بھی باقی نہ رہے ۔
For More Please Visit my Filmannex Page and Subscribe for More Madiha Awan's