عورت

Posted on at


                            


عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے. دائرہ عمل و دائرہ میدان بھی ہے. گویا گھریلو امور کی نگرانی گھریلو امور کی مینجمنٹ اور گھریلو معاملات کو خوش اسلوبی سے سمبھالنا یہ عورت کا بنیادی ترین فریضہ ہے. جس سے وہ کسی بھی حالت میں دستبردار نہیں ہو سکتی.


یہ اس کے عورت پن کا لازمی تقاضا اور اس کی نسوانیت کا اصل امتحان ہے. اگر دیکھا جائے تو گھر کے اندر کا میدان اپنے نتائج و عواقب کے اعتبار سے گھر کے باہر کے میدان سے کہیں زیادہ اہم اور بنیادی اهمیت کا حامل ہے.


 


اگر عورت گھر کے ماحول کو پر سکون نہ بناۓ گھریلو امور کو منتشر اور پراگندہ رکھے بچوں کی پرورش اور تربیت سے لا پروا اور غفلت برتے گھر کے سکون کو تلپٹ کر کے مرد کے لئے مسائل و پریشانیاں پیدا کرے تو اس کے نتیجہ میں پوری زندگی کا نظام آہستہ آہستہ تلپٹ ہوتا جائے گا.اس کے نتیجہ میں مجروح، نفسیاتی مریض اور نارسا ذھن کی حامل قوم تیار ہونا شروع ہو جائے گی  جو بلآخر کسی بڑے انسانی المیہ کو جنم دینے کا باعث بن جائے گی.


اگر کوئی عورت دنیا جہاں کی سیاست میں فوزوکامرانی کے علم گاڑھ رہی ہے لیکن گھریلو معاملات میں وہ سفر ہے گھر کی نگہبانی گھریلو مینجمنٹ میں وہ ناکام ہے تو اسلامی نقطہ نظر سے وو کلی طور پر ناکام عورت ہے.اس کے برعکس ایک عورت کبھی گھر سے نہیں نکلی کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا، حصہ لینا دور کی بات حصہ لینے کا سوچا تک نہیں کبھی ووٹ نہیں ڈالے لیکن گھریلو معاملات میں سگھڑ ہے، گھریلو فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی  ہے گھریلو نظام کی نہایت ہوشیار اور تھذیب سے نگہبانی کرتی ہے. تو وہ ایک کامیاب عورت ہے.


                   


یہی عورت کی فطرت کی آواز بھی ہے اور اسلام کی تعلیم بھی. اصل میں عورت کی بناوٹ ھی ایسی بنائی گئی ہے کہ گھر کے اندر کے نظام کو کنٹرول کرے اور آدمی کی بناوٹ ھی ایسی بنائی گئی ہے کہ وو باہر کے سسٹم کو کنٹرول کرے. یہ برتر اور کمتر کا معاملہ  نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے دائرہ کار کا معاملہ  ہے یہ دونوں عمل انسانی زندگی میں اپنا اپنا مقام لئے ہوتے ہیں.


عورت کو ابوبت کے فرائض ادا کرنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ کار امومت پر فائز کیا گیا ہے لہذا باپ کو اگر غیرت حمیت اور بیرونی دنیا کے میدان کارزار میں اترنے کے لئے بنایا گیا ہے. مرد کی حمیت کسی بیرونی حملہ آور کو گھر کے قلعہ میں دراڑ ڈالنے  اور اسے مسمار کرنے سے روکتی ہے تو عورت کی الفت و محبت اور نرمی اس اندرونی باغیچہ کی پرورش و نشونما  کرتی ہے اور اسے لہلہاتے باغ میں بدل دینے کی طاقت رکھتی ہے.



 مسلمانوں کے گھر اسلامی معاشرے کے وہ قلعے ہیں جن میں اس قلعہ کی وہ مضبوط اور صالح اسلامی معاشرہ وجود میں لانے والی مضبوط ترین مورچہ زن ہیں جنہیں عورت کہا جاتا ہے.انہی مضبوط قلعوں کے نتیجہ میں اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے.  


اسلام نے عورتوں کے لئے ایسے کی حق  کو پسند  کی نظر سے نہیں دیکھا جس میں اسے گھر سے نکل کر ساری دنیا کی نگاہوں میں آکر اپنے کسی مطالبے کو منوانے کے لئے جلسہ کرنا پڑے یا جلوس نکالنا پڑے.


اپنی مثبت اور تعمیری تعلیمات کے حوالہ سے اسلام کے پروگرام میں ایسا کوئی مرحلہ موجود نہیں ہے. دوسرے لفظوں میں اسلام جو سیاسی اقدار اور اخلاقی اقدار کو متعارف کرواتا ہے عورتوں کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لا کھڑا کرنے کو انتہائی قبیح اور مذموم فعل سمجھتا ہے. تاہم موجودہ بےحیا مغربی تہذیب نے عورت پر ظلم اور استحصال کے نتیجہ میں عورت کو برہم کر دیا ہے. اسی کا نتیجہ ہے کے مغربی عورت خاص طور پر 'ترکی' کی مسلمان عورتوں کو مجبوراً گھر سے نکلنا پڑا کہ وہ اجتماعی طور پر باحجاب ہو کر گھر سے نکلیں اور انھوں نے عورت کہ حجاب کہ حق میں مظاہرہ کیا.


            


دراصل مغرب کہ جبر اور استحصال نے وو اضطراری حالات پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں ایمان حیا کی پاسدار عورت کو گھر سے نکل کر دنیا کو بتانا پڑا اسے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے حق سے محروم کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے. 


رہا ریاست کا حق ریاسست کی سربراہی کا حق تو اسلام واضح لفظوں میں کہتا ہے کے  الرجال قوامون علی النساء.  کہ سربراہی کا حق مرد کو حاصل ہے. ریاست کی سربراہی ایک بہت بڑی آزمائش اور بہت بڑا  امتحان ہوتا ہے. جس کے لئے الله نے مضبوط اعصاب کے مالک مرد کو متخب کیا ہے عورت کو اس سے دور رکھا ہے، اسی لئے اقبال نے فرمایا


                "حافظ ناموس زن مرد آزما آفرین''


اسلام  عورت کو میدان زندگی میں اتار کر حق غالب کرنے کا کام لیتا ہے


چنانچہ ترمزی میں ہے:


             جب تمہارے امراء بدترین لوگ ہوں گے اور جب تمہارے دولت مند بخیل ہوں گے اور جب تمہارے معاملات تمھاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا پیٹ تمھارے لئے اسکی پیٹھ سے بہتر ہے.


بخاری میں مذکور ہے کہ ابو بکر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے کے: 


   جب نبی کریم (صلی الله علیہ وسلم) کو خبر پہنچی کے ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے تو آپ  (صلی الله علیہ وسلم) نے فرمایا کی وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دیے"


ثابت ہو گیا جب مرد کلی امور مملکت سے دستبردار ہو جایئں اور اپنی زمام کار عورتوں کے سپرد کر دیں تو وہ معاشرہ ایک غیر فطری معاشرہ  ہوتا ہے. جس کی قباحت بیان کی گئی ہے.


         


 تاہم اسلام کے مثالی دور کا بغور جائزہ اور مطالعہ  کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون سازی میں عورتوں نے بھی مردوں کے برابر ھی حصہ لیا. چنانچہ حضرت عائشہ (رضی الله عنہا) سے بڑے بڑے صحابہ اسلامی قانون سیکھنے آتے تھ اور آپ (رضی الله عنہا) نے بڑے بڑے مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کی. اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ مجلس قانون ساز کی رکنیت حاصل کر سکے لیکن اس مجلس قانون ساز کی نوعیت صرف قانونی مسائل میں مشاورت اور قانون کی تعمیر کا کام ہو نہ کہ انتظامی امور چلانا ہو.


تاہم ہنگامی اور اضطراری حالت میں بھی جب ناگزیر ہو تو عورت کبوبار حکومت میں حصہ لے سکتی ہے. تاہم یہ صورت ہنگامی ھی ہو گی اسے مستقل حالت قرار نہیں دیا جا سکتا.


تاہم واضح رہے کہ محض مغرب کی اندھی نقالی میں اور استعمار کہ دباؤ مینا کر عورتوں کو وزارتوں اور سیاست میں گھسیٹتے چلے جانا نہ ھی دانشمندی ہے اور نہ ھی اسلامی حمیت و غیرت کا مظاہرہ. یہ محض مغرب کی اندھی تقلید روشن خیالی اور خیرات میں عطا کئے گئے استعمار کے چارے کی جگالی ہے....................    



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160