ہمارے یہاں متوسط طبقوں میں کئی نو بیا ہتا دلہنوں سے پہلے بچے کی خوشخبری کی آس شادی کے دوسرے مہینے میں ہی لگائی جاتی ہے انہیں وقت نہیں دیا جاتا اور خاندان کی عورتیں دلہن سے سوال کرتے نہیں تھکتیں اور دلہن احساس محرومیت اور عدم تحفظ کی شکار نظر آنے لگتی ہے۔ کئی خواتین بچوں کی پیدائش کو دلہن کے مبارک قدموں سے تعبیر کرنے لگتی ہیں اور جو دلہنیں شادی کے چھ ماہ کے اندر اندر ماں بننے کی خوشخبری سنادیں وہ بہت بھاگوان سمجھی جاتی ہیں اور اگر کہیں سال بھر سے زیادہ کا عرصہ بیت جائے تو۔۔۔۔ بیٹے اور بھائی کو نہیں اس خاتون کو بھی شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے مسلسل دباؤ کا شکار ہونے سے بچنے کے لئے نو بیاہتا لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کے فوراً اولاد ہو جائے کیونکہ سسرال میں صرف اولاد کی کڑی مضبوط بندھن میں باندھے رکھ سکتی ہے۔ جب گھر کی بڑی بوڑھی خواتین کی سوچ ایسی تنگ نظری اور بے انصافی پر مبنی ہو اور وہ انتقامی جذبے کے تحت کمزور اور نہتی بہو یا بھابھی پر ظلم کرنے کو تیار بیٹھی ہوں تو ایسے میں اولاد کا ہتھیار آزمانا مجبوری ہو جاتی ہے۔
کسی سیانے نے کیا خوب بات کہی تھی کہ میاں اور بیوی کا رشتہ کمزور دھجی نہیں ہوتا لیکن اگر ایسا ہو جائے اور ایک مرتبہ تین طلاقیں ہو جائیں تو پھر دنیا کا کوئی رستہ ، اولاد یا دوست احباب از سرنو تجدید نہیں کرسکتا۔ اولیں تعلق میاں بیوی کا باہمی رشتہ ہی ہوتا ہے۔
طلاق ہونے کی صورت میں صرف حلالہ کے بعد ہی شرعی طور پر دوبارہ تعلق قائم کیا جاسکتا ہے اور حلالہ یہ ہے کہ طلاق ہونے کی صورت میں حرام زندگی گزارنے کے بجائے عدت گزارنے کے بعد عورت کسی مرد سے با قاعدہ نکاح کرے اور وہ شخص اپنی رضا و رغبت سے اسے طلاق دے اور یہ عورت دوبارہ پہلے شوہر سے رجوع کرے۔ لیکن باقاعدہ نکاح کر کے اس مشکل اور پیچیدہ صورتحال سے بچنے کے لئے غصے کو حرام کہا گیا اور ایک ہی وقت میں تین طلاق دینا نا پسندیدہ عمل بھی قرار دیا گیا کاش ہم اسلام اور اس کی حدود کو سمجھنے کی کوشش کر لیں۔ طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔ صیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد ایک مخصوص وقت تک انتظار کیا جائے۔ اس دوران دونوں فریقین تحمل و برداشت اور دُور اندیشی سے کام لیں یعنی بناہ ہوجائے تو بہتر، اس عمل کو اللہ تبارک تعالیٰ پسند فرماتے ہیں اور دوسرے طہر یعنی انتظار کی مہلت کے دوران اگر نباہ نہ ہو رہا ہو تو طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے دوسری طلاق ہوجاتی ہے اس صورت میں دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے لیکن اگر تیسری مہلت بھی بناہ کی صورت نہ نکل رہی ہو تو تیسری طلاق کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ طلاق کے بعد عدت کی عمر گزارنی ضروری ہے اس دوران نا محرموں سے مکمل پردہ بھی ضروری ہے اور نان و نفقہ کی ادائیگی سابقہ شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
آج کل حلالہ کو کاروبار بنالیا گیا ہے جو مذہبی و شرعی اور اخلاقی طور پر بھی غلط ہے اسلام نے طلاق کی قبیہ رسم کو پروان چڑھنے سے روکنے کے لئے یہ سزا یا حکمت عملی متعین کی ہے لیکن لوگوں نے اسے اپنے حق میں غلط استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی طلاق شدہ خاتون سے دوبارہ شادہ کرنے کے لے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسکی شادی کسی مرد سے کروائی جاتی ہے اور پھر وقت مقررہ پر طلاق دلوا کر دوبارہ اپنے نکاح میں لے لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ حلالہ کرنے کی مد میں معاوضہ بھی طلب کرتے ہیں یہ انتہائی مکروہ عمل ہے اور نہ صرف دھمکانے کے لئے طلاق کا دیا جانا صیح عمل ہے۔
ہر مرد اور عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی خوشگوار اور ہر قسم کے اختلاف و تنازعہ سے پاک ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کی خواہش کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہےجب اس کی بنیاد بھی پا ئیدار ہو۔ خوبصورتی عارضی ہوسکتی ہے مال و دولت بھی ختم ہونے والی چیز ہے جبکہ اخلاق و کردار ، فکر و مزاج کی پائیداری اور خوشگوار تعلقات ایسی صفات ہیں جو یادگار ہوتی ہیں اور باقی رہتی ہیں۔
لڑکا ہو لڑکی ان کا اخلاق و کردار جتنا اچھا ہو ان کی ازدواجی زندگی اتنی خوشگوار اور سکون و راحت کا باعث ہوگی چاہے وہ معاشی طور پر کمزور ہوں۔ ظاہری طور پر خوبصورت نہ ہوں یا اونچے خاندان یا قبیلے سے ان کا تعلق نہ ہو۔
رسول اکرم ﷺ ارشاد ہے۔ ،، عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال و حسب نسب، خوبصورتی اور اس کے اخلاق کی وجہ سے تو تم دینداری کو ترجیح دو،،۔
لڑکی والوں کے لئے ہدایت کی گئی کہ ،، جب تم کو ایسا کوئی آدمی شادی کا پیغام دے جس کے دین و اخلاق قابل اطمینان ہوں تو اسے قبول کر لو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے (ترمذی)۔
عورت کے بغیر گھر کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور ایک پُر سکون و پُر مسرت گھر بسانے کے لئے عورت کے تعاون اور صیح روئیے کی ضرورت ہوتی ہے اگر عورت اپنے روئیے اور عمل سے اپنے شوہر کا دل نہ جیت سکے تو وہ گھر تناؤ، الجھن اور با ہمی اختلاف اور نفرت کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صالح عورتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ،، جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت میں ان کے حقوق کی نگرانی کرتی ہیں،،(النساء ۳۴)۔
اللہ تعالیٰ نے شوہر کی ذمہ داریاں بھی بتائی ہیں کہ وہ بیوی کے لئے نان و نفقہ کا انتظام کرے اور اسے علیحدہ گھر بھی دے۔ جب دونوں یا کوئی ایک اپنی غصہ، ہٹ دھرمی اور خود پرستی میں مبتلا ہو جائے تو بات طلاق یا خلع تک جا پہنچتی ہے۔ اسیے مواقع پر شوہر اور بیوی کو بذات خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے خاندان کے بزرگوں کی رہنمائی حاصل کرنی چاہئے اور ان کے مشوروں سے باہمی صُلح کی کوشش کرنی چاہئے پاکستان میں علاقہ کے کونسلرز کے ساتھ مشاورتی کاؤنسلنگ کا طریقہ وضع کیا گیا ہے تاکہ خاندان کو انتشار سے بچایا جاسکے۔ حتی الامکان یہی کوشش ہونی چاہئے کہ عدالت وار پولیس وغیرہ سے رجوع نہ کرنا پڑے۔