اقبال نے اِس شعر كے ذریعے یہ نقطہ سمجھایا ہے كے عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان اپنی زندگی خوشگوار بنا سکتا ہے . اب یہ اپنی مرضی ہے كے جس طرح کا عمل اختیار کرنا چاہیے کر سکتا ہے . خدا نے اگر انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے تو اسے وہ تمام اوصاف بھی دے کر بھیجا ہے جن سے وہ ترقی كے تمام مراحل طے کر سکے . خدا نے اسے ہمت دی دیا ، برد باری دی ، عقل سلیم دی ، اور اسی طرح سے بہت سے اوصاف دیئے اور بھی دیا كے وہ اپنے لیے جو رستہ مناسب سمجھے منتخب کر سکتا ہے . ہم دیکھتے ہیں كے کوئی خوشحال ہے کوئی مفلس ہے . جو مفلس ہے اللہ تا ’ اعلی کو اس سے کوئی دشمنی نہیں كے وہ دولت سے محروم ہے . وہ نا انصاف نہیں ہے . وہ تو خود کہتا ہے کہہ :
" انسان كے لیے کچھ نہیں ہے . سوائے اِس كے جس كے لیے وہ کوشش کرتا ہے . "
جس نے عمل کیا ، کوشش کی ، ترقی کی راہ اختیار کی اسے ترقی ملی . جس نے جس چیز کی تلاش کی اسے مل گئی . کامیاب لوگوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیجیے . انہوں نے بے حساب جدوجہد کی . یہ درست ہے كے کبھی کبھی کوشش كے باوجود انسان ناكام ہو جاتا ہے مگر جب ہم اپنی سوچ اور اپنے عمل کا لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے كے فلاں فلاں غلطیوں کی وجہ سے ہمیں ناکامی ہوئی ہے . ایک حوصلہ مند اور با ہمت انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے .
جو لوگ بے ہمتی ، كحلی اور بزدلی کی وجہ سے ناکام رہتے ہیں اپنی تقدیر کو الزام دینا شروع کر دیتے ہیں . اصل بات یہ ہے كے تقدیر كے مطلب کو یہ سمجھتے ہی نہیں . اللہ تا ’ اعلی جانتا ہے كے فلاں وقت میں یہ کام ہو گا . فلاں آدمی فلاں وقتیہکاکرے گا . جو کچھ انسان كے متعلق آنے والے حالات اللہ تا ’ اعلی نے لوح محفوظ پر لکھے ہوئے ہیں وہ تقدیر ہے . تقدیر کا مطلب یہ نہیں كے کسی کو کسی کام كے کرنے كے لیے پابند کر دیا گیا ہے . لوح پر آنے والے حالات کا ذکر کر دیا گیا ہے. مگروہ لوگ یہ سمجھتے ہیں كے ہماری ناکامی ہماری تقدیر كے سبب ہوئی ہے بالکل غلط ہے
اگر ہم بڑے آدمیوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا كے انہوں نے اپنے اعظم اور ہمت سے جو حاصل کرنا چاہا کیا .ا . ایک لمحہ كے لیے بھی وہ اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتے تھے . یوں ہی فضول گفتار میں وقت ضائع نہیں کرتے تھے . اگر وہ گفتار كے غازی تھے تو ساتھ ساتھ كاردار كے بھی غازی تھے . ان کی کامیابی عظمت شہرت کا انحصار عمل پر تھا انسان کی زندگی اس كے اپنے عمل اور كاردار سے بنتی ہے .