ہوائی سفر دنیا کے تجربات میں سے ایک اہم تجربہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے ہوائی اڈے اور ہوائی کمپنیاں ہوتی ہیں۔ پس ہوائی سفر نے ممالک کے درمیانی فاصلے کم کر دئیے ہیں۔ ہوائی سفر بہت آرام دہ اور اب ہوا کے زریعے سفر عام ہو گیا ہے۔ یہ ہمیشہ انسان کی خواہش رہی ہے کہ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑے۔
پہلا انسان جو ہوا میں اڑا وہ فرانسیسی انجنیئر ”پلاٹرین روزیئر“ تھا۔ وہ 1783 میں ایک بڑے غبارے میں گرم ہوا بھر کر اس کی مدد سے اڑا۔ وہ ہوا میں 25 منٹس تک رہا اور ہوا کے زریعے اپنی اڑنے والی جگہ سے لے کر ساڑھے پانچ میل کے فاصلے پر پیرس میں اترا۔
اسی سال دو دوسرے فرانسیسیوں نے غبارے میں ھائیڈروجن گیس بھر کر ہوا کے ذریعے 27 میل کی ایک لمبی پرواز کی۔ اس کا ایک خاص عیب یہ تھا کہ غبارے اور پرواز کی سمت کو قابو میں رکھنا مشکل تھا، پس بہت سے لوگوں نے غبارے پر قابو پانے کے لیئے کوششیں بھی کیں۔ سن 1848ء میں ایک انگریز ”سٹرنگ فیلو“ نے ماڈل ہوائی جہاز تیار کیا، جس کا انجن بھاپ پر چلتا تھا لیکن اس کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
سن 1852ء میں ایک فرانسیسی ”جیفارڈ“ نے بہت کم رفتار والا صرف پانچ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والا ہوائی جہاز تیار کیا۔ سن 1884ء میں دو فرانسیسی انجنیئرز ”کربز“ اور ”ریوارڈ“ نے ہوائی جہاز بنایا جس میں الیکٹرک موٹر تھی اور یہ جہاز 13 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑا۔
سن 1896ء میں امریکن انجنیئر ”لانجلی“ نے ایک ماڈل ہوائی جہاز تیار کیا جو کہ 3200 فیٹ کی اونچائی پر 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑا۔ جرمن انجنیئر ”وولفرٹ“ نے پیٹرول انجن والا ہوائی جہاز بنایا۔ سن 1900ء میں ایک اور جرمن ”کائونٹ وُن ذیپلَن“ پیٹرول انجن والے ہوائی جہاز میں انگلش چینل کے اوپر سے اڑا، لیکن کچھ حادثات کی وجہ سے پیٹرول انجن والا جہاز بھی ناکام ہو گیا ۔
پہلی جنگ عظیم سے کچھ دن پہلے جرمن ”کائونٹ وُن ذیپلَن نے ایک عظیم ہوائی جہاز بنایا جس کی مدد سے جرمنی نے انگلستان پر بمباری بھی کی۔ دو اور امیرکن ”رائٹ“ برادران نے ہوائی سفر طے کرنے کی بہت کوشش کی اور پس اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے 17 دسمبر 1930ء کو پہلا ہوائی سفر طے کیا۔ سن 1909ء میں ایک فرانسیسی انجنیئر ”بلیورٹ“ نے ایک ہوائی جہاز تیار کیا اور اس کی مدد سے انگلستان کو دوبارہ پار کیا۔
پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہوا بازی کو اتنی اہمیت نہیں دئی گئی کیونکہ ہوا میں اڑنے کو ایک خطرناک کھیل سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جنگ عظیم اول کے دوران جرمن جنگی جہازوں نے انگلستان میں بڑی تباہی مچائی۔ اپنے دفاع کی غرض سے انگلستان اور اس کے اتحادیوں نے بھی جرمنی کے خلاف لڑنے کے لیئے لڑاکا طیارے تیار کیئے۔ پس ان جنگی جہازوں کا مقابلہ کرنے کے لیئے جرمنی نے مزید بمبار اور لڑاکا طیارے تیار کیئے۔
جنگ عظیم اول کے بعد ان جنگی طیاروں کو مسافر اور سامان بردار طیاروں میں بدل دیا گیا۔اور انگلستان اور پیرس کے درمیان باقاعدہ ہوائ سروس شروع کی گئ۔ سن 1919ءمیں بحرالکاہل کو ہوائ جہاز کی مدد سے پار کیا گیا۔اس کے بعد لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب عام آدمی بھی ہوائ سفر کر سکے گا۔ پس سن 1930ء میں انگلستان اور یورپ کے درمیان باقاعدہ ہوائ سروس شروع کی گئ۔اس وقت تک جرمنی ہوائ جہاز کی صنعت میں سب سے آگے تھا۔
لیکن اس کی صنعت کو زوال آگیا جب 1939 میں اس کے دو بڑے جہاز ہوا میں تباہ ہو گئے۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران جہاز کو ترقی دینے پر بڑی توجہ دی گئی۔ جہاز کی رفتار کو مزید تیز کیا گیا، جیٹ کی ایجاد کے بعد ہوائی سفر مزید آسان ہو گیا۔ اب جہاز پانچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتے تھے۔ اس کے بعد اتنے تیز ہوائی جہاز بنائے گئے جن کی رفتار گیارہ سو ساٹھ فی گھنٹہ تھی۔ راڈار کی ایجاد کے بعد ہوائی سفر مزید محفوظ اور قابل اعتماد ہو گیا۔ راڈار کی مدد سے پائیلٹ اپنے ارد گرد کی جگہ کو دھند اور خراب موسم میں بھی جان سکتا ہے۔ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہوائی جہاز کی رفتار کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ہوائی سفر تیز سے تیز ترین ہو سکتا ہے۔