عمارات اندلسیہ۔۔۔
2۔ رصافہ
سرزمین اندلس کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی یادگاریں موجود ہیں۔ لیکن افسوس کہ اذان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مسجد قرطبہ آج بھی مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کے حسن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
یہ وہ تاریخی مسجد ہے جس میں ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے اذان دے کر نماز پڑھی تھی اور اس کی شان میں اشعار لکھے۔ اس کی تعمیر عبدالرحمان الداخل نے اپنی موت سے دو سال پہلے شروع کی۔ امیر کا خیال تھا کہ اس جامع مسجد دمشق کی طرز پر بنایا جائے گا۔ امیر نے دو سال مین اسی ہزار دینار سرخ خرچ کیے۔
بلند و بالا دیواریں شہر پناہ کا روپ دھار رہی ہیں۔ دروازے کے قریب وہ مینار ہےجس نے ہزاروں اذانیں سنیں اور لاکھوں مسلمانوں کو یہاں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ چھت کی بلندی 30فٹ ہے۔ خوبصورت محرابیں اور دلکش ستون آج بھی مسلمانوں کی عظمت کے گواہ ہیں۔
الداخل کے بعد ہشام نے بھی مال غنیمت کا پانچواں حصہ مسجد کی تزئین و آرائش پر خرچ کیا۔ یہ سلسلہ سات سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ ہر امیر نے اس مسجد میں کچھ نہ کچھ اضافہ کیا۔ اس کی تکمیل خلیفہ ہشام المویدباللہ کے دور میں محمد بن ابی عامر کے زیرنگرانی ہوئی۔ اس کا طول 570 فٹ اور عرض 465 فٹ ہے۔ محراب سفید سنگ مرمر سے تیار کیا گیا ہے۔ دروازوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 21 ہو گئی تھی اور ان میں خواتین کے لئے الگ دروازے تھے۔
امیر اندلس کے لئے سونے کا دروازہ لگایا گیا تھا۔ مسجد کے قریب دارالصدقہ تعمیر کیا گیا جس میں نادر طلبہ کے لیے تمام سہولتیں مفت مہیا کی جاتی تھیں۔ فانوسوں اور موم بتیوں سے رات کو دن کا سماں بن جاتا تھا، چراغوں کی تعداد تقریبا 7000 تھی، لیکن جب اندلس میں مسلمان حکومت کو زوال آیا اور فرڈی لنڈ اپنی ملکہ کے ہمراہ قرطبہ میں داخل ہوا تو اس نے سب سے پہلے جامع مسجد قرطبہ کو بت خانے میں بدل دیا اور مختلف قسم کے یادگاری بت کھڑے کر کے مسجد کے مقدس اور پاکیزہ حسن کو پامال کر دیا گیا۔
بنوامیہ کے مشہور حکمران ہشام نے شام میں ایک محل بنوایا تھا۔ اس محل کا نام رصافہ تھا۔ عبدالرحمان الداخل جب اندلس میں برسر اقتدار آیا تو اس نے قرطبہ کے باہر اسی طرز کا محل بنوایا۔ اس کا نام بھی رصافہ رکھا گیا۔ اس محل کو باغات سے مزید خوبصورت بنایا گیا۔
الداخل کی بہن ام الصبح شام سے ان باغات کے لئے خوبصورت پھل دار درخت بھیجتی رہتی تھی۔ کھجور کے صرف ایک درخت کے باغ سے الداخل کو بے حد محبت تھی۔ رصافہ کو ارد گرد آبادی بڑھتی گئی جس سے اس شہر نے ایک حسین و جمیل شکل اختیار کر لی اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ابوعبداللہ بن الرفا نے اپنے اشعار میں اس کی خوب تعریف کی ہے۔