یہ ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جو گھر نہیں پھولوں اور خوشیوں کا چمن لگتا ہے اس گھر کا سربراہ بلکل ایک مالی کی طرح اپنے گلشن کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا-
میں فاطمہ اس گلشن کی سب سے بڑی بیٹی ہوں-میں نے کبھی بھی نہیں تھا کے میں اس طرح اشک بار آنکھوں سے اپنے والد کے بارے میں لکھوں گی، میرے والد ایک بہت شفیق باپ اور سب سے بڑھ کر رحم دل اور ہمدرد انسان تھے-وہ ایک ایسے انسان تھے جو اپنے پراے کو ترازو میں رکھتے تھے- ہر ایک کے اچھے برے وقت میں کام انے والے انسان تھے- قدرت کے کھیل بھی عجیب ہوتے ہیں-یہ سنا تھا پر ہمیں کیا پتا تھا کے قدرت ہمارے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلے گی
ہمیں کیا معلوم تھا کے ان کی ایک اچھائی انکی جن لے جائے گی یہ ١٨ جون ٢٠١٢ کی کی ایک قیامت خیز شام تھی جب ہمیں یہ خبر ملی کے عادل اور شاہنواز کواور ان کے بھتیجے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ہے- وہ بھی اس نے جسے وو ڈاکٹر سے چیک اپ کرانے لے گئے تھے جسے ہمارے والد نے اس کے والد کی وفات کے بعد اسکی تعلیم سے لے کر اس کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے تک اور اسے ایک اچھے کاروبار پر لگانے تک مدد کی لیکن اس نے ادھر بھی دل جمی سے کام نہیں کیا اور غلط کاموں میں دھنستا چلا گیا- یہاں تک وہ نشہ ا کرنے لگا- میرے والد اسے وقتا فوقتا اس کی زمداریوں کا احساس دلاتے رہتے تھے-
لیکن اس موحسن انسانیت کو کیا پتا تھا کے جس کے لئے وو اتنا سوچتے ہیں ووہی انکی جان لینے کے لئے سوچ رہا ہے-وہ ہر وقت اپنے گھر میں اپنی ماں اور بہنوں کو بتاتا رہتا تھا کے میں اپنے چچا کو قتل کروں گا لیکن اس کے گھر والوں نے ہمیں کان و کان خبر نہ ہونے دی-ان دنوں ہمارے نئے گھر کی تعمیر ہو رہی تھی وو ہر دن ہمارے گھر اتا لیکن اس نے ہمیں کبھی یہ محسوس نہ ہونے دیا کے وو کیا کرنے والا ہے- الله کے فضل سے ہمارے پاس ایک گاڑی تھی جو ہمارے مو بھولے بھی چلایا کرتے تھے ایک دن وو بیمار ہو گئے اور بابا ان کو لے کر ہسپتال گئے راستے میں میرے اس کزن نے ان پے فائرنگ کرنا شروع کر دی- اور میرے مو بھولے بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہی پی دم طوڑ گئے- میرے بابا اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور انکا بھی انتقال ہو گیا- جاتے جاتے وہ اس گلشن کو اجاڑ گئے-
(یہ واقعہ ہمارے گھر ایک عورت نے آ کے سنایا)