جیسا کے آپ کو میں پہلے بتا چکا تھا اس سے پہلے والے بلاگ میں کے
صبھ ہوہیں تو وہ ہی ڈرامہ ہوا جسکا مجھے پتہ تھا۔سب نی اپنا اپنا بہانہ بنا لیا کے کام ہیں ایسا ہیں ویسا ہیں۔میں نے کہا ٹھیک ہین۔
تو پھر کیا تھا میں نے ان سے بات ہی نہیں کی اور نہ کچھ کہا کے میں تم لوگوں سے خفا ہوں یا ایسے ہی کچھ اور بات بس میں اپنے کالج کو دوستوں کے ساتھ اور اپنے کزن کے ساتھ چلا گیا۔ جیسا کے آپ کو کافی باتیں بتا چکا ہوں میں اس سے پہلے والے بلاگ میں۔ھری پور سے ہم ایبٹ آباد کے لیے چلے گے۔راستے میں جو کچھ ہوا وہ بھی آپ کو بتا چکا ہوں۔
ایبٹ آباد میں بیٹھ کر کھانا کھایا کر پھر ہم نکل گے آگے ہم مری کے لیے نکل گے آبیٹ آباد سے تقریباً ایک گھنٹے کا سفر کر کے آگے گے تو مری کے باس پہنچ گے مگر وہاں پر ٹریفک تھی کیونکہ عید تھی تو سب لوگ آے تھے گھومنے بہت سے لوگ فیملی کے ساتھ آے تھے اور بہت سے لوگ ہمارے جیسے تھے جو اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ آے ہوےٴ تھے
وہاں پر ہم بھی تقریباً ایک سے زیادہ گھنٹے ٹریفک میں رکیے رہے۔کیونکہ وہاں پر تو ایک تو روڈ خطرناک ہیں اور وہاں پھر ٹریفک آفسر بھی موجود نہیں تھے ہر ایک اپنی مرضی کر رہا تھا جیسے دل کر رہا تھا ویسا ہی کر رہا تھا
ہم بھی کافی دیر ان لوگوں کا شگل دیکھتے رہے۔پھر ہم نے بھی ایسا ہی کام کیا جہاں سے جگا ملی وہاں سے ہی نکلتے گے۔بہت وقت کے بعد ہم ہم لوگ ایوبیا پہنچے وہاں سے پھر ہم نے ایک ہوٹل میں چاےٴ پی اور اس کے بعد پھر ہم ایوبیا ٹریک پر چہل قدمی کے لیے نکلے۔وہ ٹیک ۴ کلومیٹر کا تھا ہم لوگ تقریباً ۲ ایک کلومیٹر گے تھے پھر وہاں پر ایک جگہ پر بیٹھ گے تھے وہاں پھر پیٹھ کر ہم نے خوب ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ
کی اور کافی دیر وہاں پر بیٹھ کر آرام کیا اور سکون کے ساتھ اپنا کچھ وقت وہاں گزارا۔