ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر ذیادہ تر لوگ پانی کی اہمیت سے ناواقف ہیں اور وہ پانی کی اصل اہمیت کو نہیں جانتے ہیں۔ میں اکثر جہگوں پر پانی کو ضائع ہوتے دیکھتا ہوں تو محجھے دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کب ایک پڑھا لکھا معاشرہ ہو گا۔ میرا پڑھے لکھے معاشرے سے مراد ایسا معاشرہ نہیں ہے کہ جہاں لوگوں کے پاس بہت ساری ڈگریاں ہوں بلکہ میرا پڑھے لکھے معاشرے سے مراد ایسا معاشرہ ہے جہاں کے لوگوں کی سوچ پڑھی لکھی ہو اور ملک کے نفع و نقصان کو اپنا ذاتی نفع و نقصان جانیں اور فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
آپ نے بھی اپنے علاقے یا شہر میں دیکھا ہو گا کہ ہر گلی یا محلے سے کافی مقدار میں پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ کیا آپ نی یہ سوچا ہے کبھی کہ یہ پانی کہاں سے آتا ہے؟ یہ پانی وہ پانی ہے جو ہم کو گھریلو استعمال کے لیے فراہم کیا جاتا ہے اور ہم اس کو غیر ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور ضرورت سے ذیادہ پانی کو فالتو بہا دیتے ہیں۔
یہ پانی ایک قومی اثاثہ ہے اور ہمیں اسکو ایک ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے اور اس کو ندی نالوں میں ضائع ہونے سے بچانا چاہیے۔ دریاوں، ندی نالوں پر بند باندھ کر پانی کو ذخیرہ کر کے ذراعت وغیرہ کے لیے استمعال کرنا چاہیے، اسی طرح گورنمٹ کو چاہیے کہ ہر محلے یا گلی میں فلڑپلانٹ لگوانا چاہیے اور استعمال شدہ پانی کو دوبارہ استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح دریاوں اور ڈیم کے پانی کو گندہ ہونے سے بچانا چاہیے اور فیکڑیوں سے نکلنے والے گندے پانے کو صاف پانی میں ملنے سے روکنا چاہیے۔