سون سکیسر کے پہاڑ
سون سکیسر کے پہاڑوں میں کچھ قدرتی غار ہیں۔ مقامی لوگ ان کو ُمیہلہ‘ کہتے ہیں۔ یہ غار مرور زمانے سے یا تو از تواز خود پیدا ہو گئے ہوں گے یا پھر دور قدیم کے انسان نے اسے اپنے ہاتھوں سے انہیں بنایا ہو گا۔ ماضی قریب میں کچھ غاروں کو خود بنائے جانے کی روایات بھی سنی گئی ہیں۔ سون کے لوگ ’مہیلوں‘ کو مویشیوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا پھر یہ چرواہوں کی عارضی رہائش اور بارش سے بچائو کے لیے کام آتی ہے۔ ان پناہ گاہوں کی ضرورت اکثر موسم سرما کی راتوں یا طوفان بادوباراں سے بچنے کے لیے پیش آتی ہیں۔
چرواہے اپنے مویشیوں کو ہانک ہانک کر ان مہیلوں میں اتنی کثرت سے لاتے ہیں کہ مویشی ان مہیلوں سے بڑی مانوس ہو جاتے ہیں۔ پھر ان مویشیوں کو ہانکنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی ہے۔ بلکہ وہ خود پہاڑ پر چڑھنے کے بعد ان مہیلوں میں چلے جاتے آتے ہیں۔ وادی کی گہرائی سے اگر ان مہیلوں کو دیکھیں تو دور سے یہ سیاہ دھبوں کہ شکل میں دیکھائی دیتےہیں۔
مہیلوں کے اندر جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں با قاہدہ کھڑے ہونے کی بھی گنجاہش ہوتی ہے۔ ان کے فرشوں پر کہیں کہیں جلی ہوئی لکڑیوں اور بجھے ہوئے الائو کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مویشیوں کے ساتھ ساتھ چرواہے بھی یہاں پر شب باشی کر لیتے ہیں۔