پچھلے دو بلاگز میں میں نے اسی ٹیسٹ کے پہلے دو دنوں کے بارے میں لکھا. اس بلاگ میں پہلے ٹیسٹ کے آخری تین دنوں کے بارے میں بات ہو گی. تیسرے دن کا کھیل سری لنکا نے ٩٩ رنز ایک کھلاڑی آوٹ پہ شروع کیا تو کوشل سلوا اور سنگاکاراّ نے اچھا کھل پیش کیا اور سری لنکن اننگز کو آگے لے کے چلے. کوشل سلوا نے پچاس بنائی. ان کے آوٹ ہونے کے بعد مہیلہ جےوردنے بیٹنگ کرنے اے. یہ ان کا گال میں آخری میچ تھا تو ان کو بلوں کے ساۓ میں میدان میں پہنچایا گیا. مہیلا اور سنگا نے ایک بار پھر ایک اچھی شراکت بنائی اور تیسرے دن کے اختتام پر محلہ اور سنگا کریز پر موجود تھے. چوتھے دن کے آغاز میں ہی عبدرحمان نے سنگا کارا کا کیچ ڈراپ کر دیا. اور یوں سنگا کو ایک لائف مل گئی جس کو انھوں نے خوب کیش کیا اور اپنے کیریئر کی دسویں ڈبل سنچری بنا ڈالی. ان کی ڈبل سنچرے کے متعلق میں نے ایک مائکرو. بلاگ بھی لکھا ہے. سعید اجمل جو کہ سری لنکن اننگزمیں ابھی تک ناکام تھے ان کا جادو بھی چل پڑا اور ان نے پانچ وکٹیں اڑا لیں. آخر سرلنکن ٹیم نے ٥٠٠ سے کچھ اوپر رنز پر ڈکلئیر کر دیا.
چوتھے دن کا آخری آدھا گھنٹہ پاکستان کو بیٹنگ کے لئے ملا پاکستان کی طرف سے خرّم اور احمد اوپن کرنے کے لئے اے. خرّم ڈیفنسو بیٹنگ کرتے کرتے آوٹ ہو گے. اس کے بعد سعید المال قربانی کا بکرا بنے اور نائٹ واچ مین بن کر میدان میں اترے. سعید اجمل نے احمد کی ہدایت کی روشنی میں بیٹنگ کی. اور یوں چوتھا دن پاکستان کو خرّم کے آوٹ کا نقصان دے کر ختم ہو گیا.
اس ٹیسٹ کے پانچوے اور آخری دن پاکستان کی بیٹنگ ایک بار پھر مٹتی کا دھر ثابت ہوئی اور پاکستان کی ٹیم ١٨٠کے قریب سکور پر آوٹ ہو b گئی. جس میں سرفراز احمد کے ٧٠ گیندوں پر ٥٢ رنز، مصباح کے ٦٤ گیندوں ور ٢٨ رنز اور اظہر علی کے ١٥١ گیندوں پر ٤١ رنز شامل تھے. باقی کوئی کھلاڑی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکا. پہلی اننگز میں ١٥٠ بنانے والے یونس خان بھی رنز بنانے میں ناکام رہے. احمد شہزاد بھی پہلی اننگز کی طرح ناکام ہی ڈریسنگ روم کی طرف لوٹ گئے. دوسری اننگز میں ٹیم نے شائقین کرکٹ کو بہت مایوس کیا. یوں سری لنکن ٹیم کو ١٩ اورز میں ٩٩ رنز کا ہدف ملا. بیشک ہمارے بالرز دنیا کے بہترین بالرز ہیں لیکن وہ ہیں تو بالرز ناں اتنا کم ہدف کیسے ڈیفنڈ کر سکتے تھے. لیکن پھر بھی انھوں نے بہت اچھی بالنگ کروائی.
جب سری لنکن ٹیم کے ٢٥ کے قریب رنز رہ گے تھے تو بہت گہرے کالے بادلوں نے اسٹیڈیم کو ڈھانپ لیا. اس وقت یہی لگتا تھا کہ شائد اب پاکستان ہار سے بچ جائے اور میچ ڈرا ہو جائے. ایک دو بار امپائرز نے لائٹ میٹر نکالا لیکن پھر بھی کھیل نہ روکا. اس وقت پاکستانی ہیڈ کوچ وقار یونس کو بہت غصہ آیا کہ امپائر کھیل کیوں نہیں روک رہا. بات تھی ہی غصے والی. احمد شہزاد نے بھی امپائر کی اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تاہم کچھ نہ بن پڑا اور کھیل چلتا رہا. اب پاکستانیوں کی آخری امید بارش ہی تھی تو بارش کے لئے دعائیں شروع ہوئیں کیکن شائد الله کو سری لنکا کی جیت ہی منظور تھی کیوں کہ جس اوور میں میتھیوز نے چھکے لگا کر ٹارگٹ پورا کر لیا اس اور میں اگر ٹارگٹ پورا نہ ہوتا تب بھی شائد میچ کو ختم کر دیا جاتا.
اور یوں پاکستانی ٹیم ایک ایسا میچ ہار گئی جو کہ ڈرا دکھائی دیتا تھا. اور مصباح الحق کے مطابق اس کی وجہ ٹیم کی دوسری اننگز میں غیر زمےدارانہ بیٹنگ اور ہیراتھ کی تباہ کن بالنگ تھی.اس میچ میں سے اگر پاکستان کے لئے اچھی باتیں نکالی جائیں تو ایک تو سعید اجمل کا فائیو وکٹ ہال ہے. اور دوسرا یہ کے سرفراز احمد نے دوںوں اننگز میں بہت اچھی بلے بازی کی اور دیار غیر میں کسی ٹیسٹ کی دونو اننگز میں پچاس کرنے والے پہلے پاکستانی وکٹ کیپر بن گئے.