آپ جس وقت خلیفہ بنے اس وقت نظام حکومت کا کوئی باقائدہ آغاز نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ حضرت ابو بکر صدیق نے اسکی بنیادیں استوار کر دیں تھیں ۔ اور نہ ہی آپ کے گرد و پیش کی حکومتوں کے نظام جمہوری تھے بلکہ سراسر شخصی حکومتیں تھیں۔ قیصر و کسریٰ کی حکومت شخصی اور آمرانہ تھی۔ لہذٰ آپ کے سامنے کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی جو نظامِ حکومت کے سلسلے میں معاون ثابت ہوتی۔ یہ تو فیضانِ نبوت کا کمال تھا کہ آپ اسلامی نظامِ حکومت کے حقیقی منتظم ثابت ہوۓ۔ آپ کی حکومت شورائی تھی اور تمام اہم فیصلے مشاورت اور کثرتِ راۓ سے عمل میں لاۓ جاتے۔ گورنروں ، اعمال و حکام کا تقرر عوام کی مرضی سے طے پاتا اور جہاں ضروری سمجھتے خود بھی ایسے شخص کو عامل مقرر کر دیتے جو اس منصب کا اہل ہوتا اور آپ کے انتخاب پر شائد ہی کبھی رعایا کو شکایت کا موقع ملا ہو۔ کبھی شکایت پہنچتی تو فی الفور مداوا کرتے تھے۔اس کے علاوہ ہر شخص کو اپنے حقوق کا مکمل تحفظ حاصل تھا ۔ اور لوگ برملا اپنے حقوق کا اظہار اور مطالب بیان کر سکتے تھے۔ اسی طرح خلیفہ کے حقوق بھی عوام کے حقوق سے جدا نہ تھے بلکہ مساوی تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور نظامِ حکومت(3)۔
Posted on at