جو ناقص پیداوار دکھائی دیتی ہے وہ تیکنیکی طور پر تربیت یافتہ افراد کی قلت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس وافر مقدار میں میڈیکل گریجویٹس ہیں لیکن نرسین، پیرامیڈکس، لیبارٹری اسٹنٹس وغیرہ بہت کم ہیں جن کے بغیر صحت کی خدمات کی فراہمی کا نظام درست طور پر نہیں چل سکتا۔
تکنیکی اور ہنر مند افراد کی قوت کی طلب درسد کے درمیان فرق کی ایک وجہ ہمارے ہاں سفید پوشت ملازمت کو ہی باعزت سمجھنے کا رحجان ہے۔ دہم، ترقی اور کیریئر میں آگے بڑھنے کا موجودہ نظام سخت ناقص ہے جس میں سینیارٹی یا مدت ملازمت کی بنیاد پر کسی استاد کو ہیڈٹیچر، ہیڈماسٹر یا پرنسیپل بنا دیا جاتا ہے اور اس کے رحجان اور مہارتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔بہت کم اساتزہ اچھے منتظم بن سکتے ہیں اور انہی کو چن کر تربیت وپرداخت کی جانی چاہیے۔اساتزہ کے کیر یئر میں ترقی کے مواقع بھی کھلے اور پرکش ہونے چاہئیں۔
فی الحال ترقی پانے کا واحد راستہ انتظامی عہدوں پر جانا ہے۔ یازدہم، ثانوی اور اعلٰی ثانوی تعلیم کے سرکاری بورڑز کے ذریعے امتحانات کے موجودہ نظام نے حافظے، رٹے اور پرچوں میں مواد کو کاغز پر اتار دینے کے عمل کو ترویج دی ہے۔
کرپشن، نتائج میں میں گڑبڑ، نقل اور جعلی مارک شیٹس کلچر میں عام ہو گئی ہیں۔ ملک کے اعلٰی تعلیمی اداروں کی جانب سے جوانٹری ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ان سے سرکاری بورڈ کے امتحانات کی خامیاں کھل کر سامن ٓاتی ہیں۔ ان امتحانات میں بہت اچھے گریڈ لینے والوں کو بڑی تعداد ان ٹیسٹوں میں کامیاب نہیں ہو پاتی کیونکہ انہوں نے بورڈ کے امتحانات میں ناجائز ذرائع استعمال کیئے ہوتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں مندرجہ بالا فہرست کے علاوہ بھی متعدد مسائل ہیں۔ لیکن اگر مزکورہ مسائل سے نمٹنے کے لئے لمبی لمبی تقاریر کرنے کے بجائے مخلصانہ کوششیں کی جائیں تواس نظام سے بہت اچھائی برٓامد ہو سکتی ہے۔مگر ان مسائل کو حل کرنا ٓاسان نہیں کیونکہ حالات کو جوں کا توں رکھنے میں حائل پیوستہ مفادات ایسا نہیں کرنے دیں گے۔