امن و امان کا مسئلہ یا سیاسی مقاصد کا حصول
میرے پچھلے دو بلاگوں میں چوہدری نثار علی کے دیئے گئے بیان اور اس کے جواب میں جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نواب محمد اکبر خان بگٹی کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکمران توسیع پسندی کے فارمولے پر گامزن ہیں یا پھر میاں نواز شریف کو اپنے ساتھیوں پر کنٹرول نہیںجو الٹے سیدھے بیانات دے کر اپنے ساتھیوں اور حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جارہا تو ملک میں صرف انارکی پھیلے گی بلکہ حکمران جماعت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ژروع ہو جائے گا۔
پاکستان کے وزیربرائے صوبائی رابطہ و قدرتی وسائل چوہدری نثار علی نے کہا تھا کہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں تیل کے ذخائر ہیں اور انہیں تلاش کیا جائے گا اس سلسلے میں ہم نے کسی ملک کا دباؤ قبول نہیں کیا وفاقی وزیر کا یہ بیان بالکل بچگانہ معلوم ہوا،اور انہیں شاہد ماضی کے بارے میں بھی علم نہیں تھا،جغرافیائی حالات سے بھی واقف نہیں تھے۔
بلوچستان کی سرحد سے متصل ایرانی علاقے زاہدان اور بندرگاہ عباس صرف تیل کی دولت کے حوالے سے مشہور تھے پھر بلوچستان کے علاقے کافی نیچے ہیں۔
جنرل ایوب خان کے دور میں بلوچستان سے تیل نے نکالنے کی کوشش کی تھی مگر شہنشاہ ایران ایک دم پاکستان پینچ گئے انہوں نے پاکستان کے لئے بھاری امداد کا اعلان کیااس کے عوض پاکستان کو چاغی کے علاقے میں تیل نکالنے کا منصوبہ ترک کرنا پڑاجو ہمارے نہ صرف اس وقت کے حکمرانوں نے کیا بلکہ ذولفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، بے ںظیر اور نوازشریف وغیرہ سب نے کیا، کسی نے کوشش نہیں کی کہ تیل نکالا جائے اگر اس وقت کی موجودہ حکومت ضلع چاغی میں تیل نکالنے میں مخلص تھی تو نہ صرف بلوچستان کے عوام اس کے احسان مند تھے بلکہ پاکستان اقتصادی طور پر انتہائی مضبوط ہوا تھا۔
والبندین سمیت ضلع چاگی کے تمام سرحدی علاقوں کے نیچے تیل کا سمندر بہہ رہا ہے اور اگر ہم نے اس تیل کو تیل کو نکالنا شروع کر دیا تو سب سے زیادہ تیل بلوچستان میں ہوگا جو دیگر ننالک کے نقابلے میں اوسطا کافی نیچے ہے۔ حکومت اگر چاہتی تو اپنے سارے فالتو منصوبے بند کر کے غلع چاغی میں سے تیل نکالنے کے منصوبے پر کام کر سکتی تھی جس پر لاگت کم اور آمدن کے امقانات انتہائی زیادہ تھے۔
اسی طرح وفاقی حکومت ہر صوبے اور علاقے کی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جو وسائل جس علاقے سے حاصل ہوں وہاں کی بھلائی کے لئے استعمال کرتے بلکہ اوپر سے اسے طاقت کے زور پر دھبانے کی دھمکی دے دی۔