حصہ 1 دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
حصہ 2 دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
عورت اور مرد کے کام کاج کا دائرہ الگ الگ ہے۔ یہ فطرت کا تقاضہ ہے۔ فطرت نے ماں بننے کی خدمت عورت کے حوالہ کر کے یہ باا دیا ہے کہ اس کے کام کا اصل دائرہ کیا ہے اور باپ بننے کا فرض مرد کے سپرد کر کے اشارہ کر دیا ہے کہ اس کے حوالے کون کون سے کام اس کے سپرد کئے گئے۔دونوں قسموں کی خدمات کے لئے عورت اور مرد کو الگ الگ جسم دئیے گئے ہیں الگ الگ قوتیں دی گئی ہیں۔ فطرت نے جس ماں بننے کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کو صبر و تحمل بخشا ہے۔ اس کی طبیعت میں نرمی پیدا کی ہے۔ اس کو ایک ایسی چیز دی ہے جسے "مامتا" کہتے ہیں اور اگر اس میں نہ ہو تو آپ اور ہم خیر و خوبی سے پل کر جوان نہ ہو سکتے تھے۔ یہ کام جس کے ذمے دیئے گئے ہیں وہ عورت ہے۔ جسے ان بھاری ذمہ داریوں سے آزاد کیا گیا ہے جو کہ ماں بننے کے لئے ضروری ہیں آپ اس بات کو اگر مٹانا چاہتے ہیں تو جیصلہ کر لیں کہ اب دنیا کو ماؤ ں کی ضرورت نہیں تو کچھ وقت گزرے گا کہ انسان ایتم بم اور ہائیڈروجن بم کے بغیر ہلاک ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ فیصلہ ابھی نہیں کرتے اور قدرت کی اس تقسیم کو بھی مٹانا چاہتے ہیں تو یہ عورت سے سراسر ظلم ے کہ ایک تو وہ پورا وزن اٹھائے جو کہ فطرت نے ماں بننے کے لئے اس کے ذمے رکھا ہے جس میں مرد ذرہ برابر بھی اس کی معاونت نہیں کر سکتا اور پھر اس کے علاوہ مرد کے ساتھ مل کر سیاست، تجارت، صنعت، حرفت اور دفتر وغیرہ کے کاموں میں بھی بھر پور حصہ لیتی رہے۔
خدا را ٹھنڈے دل سے غور تو کریں کہ انسانیت کی خدمت کا آدھا حصہ بلکہ آدھے سے زیادہ ہو ہے جسے عورت نبھاتی ہے۔ کوئی مرد تل برابر بھی اس کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔ باقی آدھے حصے میں بھی آپ چاہتے ہیں کہ اس کا یہ وزن بھی عورت اٹھائے۔ اس حساب سے تین حصے عورت کے ذمہ ہوئے اور مرد کے ذمہ صرف چوتھائی حصہ۔ کیا یہ انصاف ہے؟ مذہب اسلام نے یہ مہربانی کی کہ عورت ہونے کے ناطے سے زنانہ خدمات سر انجام دے اور اس کو مرد کے برابر عزت۔ بلکہ ماں ہونے کی حیثیت سے کچھ زیادہ ہی عزت کے مستحق ہوئی۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ چیز ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ عورت ماں بھی بنے، دکاندار بھی بنے جج بھی بنے، آفیسر بھی بنے اور پھر ناچے گائے بھی اور عورت کھلونے کی طرح مردوں کے دل بھی بہلائے۔
آپ کو اس صنف نازک پر اتنا بوجھ رکھنے کی فکر ہے کہ ہو کسی کام کو بھی مکمل اور پوری طرح نہیں کر سکتی۔ آپ اس کے حوالے ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ پیدا ہی نہیں کی گئی۔ آپ اسے اس میدان میں گھسیٹ رہے ہیں جہاں ہو عورت ہونے کے ناطے مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی جہاں مرد ہمیشہ اس سے سبقت لے جائے گا اور عورت کو اگر اگر داد بھی ملے تو صنف نازک کر رعایت سے ملے گی۔ یہ بات تمہارے پاس ترقی کے لئے ضروری ہے اورخاندان کی اہمیت آپ نے"ترقی" کے جوش میں بھلا دی۔