آج کل ہم پاکستان کی خراب معاشی، سیاسی اور داخلی صورتحال کا رونا تو روتے ہیں- بغیر سوچے سمجھے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا سلامت رہنا ایک معجزہ ہے- اب پاکستان کو خدا ہی بچاۓ- میں اپ سب کو اس بلاگ کے ذریے یہ بتانا چاہتی ہو واقعی پاکستان کی ابھی تک سلامتی ایک معجزہ ہے- کیوں کہ کیا ہم نے کبھی اس کے قیام کے بعد ریاست کو پیش انے والی مشکلات کے بارے میں جانا- اگر جانا ہے تو نہ مکمل ہی جانا- ورنہ ہم کبھی بھی ایسی باتیں بھول کے بھی نہ کرتے- کیا میرے باقی بھائی جانتے ہیں کہ اس ریاست کے قیام کے بعد ہمارے "موجودہ پسندیدہ ملک" اور بھارت نے ہمارے ساتھ کیا کیہ- چند ایک مثالیں میں اس کے بارے میں ضرور لکھنا چاہو گی-
سب سے پہلے تو مسلمان کو ایک ٹوٹی پھوٹی ریاست دی گیی- پاکستانی مسلح افواج کے سب سے پہلے ڈپٹی آرمی چیف میں اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت خود، جے پور اور کشمیر کی ریاستیں پاکستان سے الحاق چاہتی تھیں- لیکن لارڈ مونٹ بیٹین نے انہیں لالچ، حرص، دہمکیوں اور پاکستان کے تاریک مستقبل کا حوالہ دے کر بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کیا-
قیام پاکستان کے بعد جنرل اکبر نے کراچی میں پونچنے کے بعد کا منظر کچھ یوں بیان کیا کہ انگریزوں نے تمام آرڑنینس ڈپو، آلات، حرب، اسلحے اور موٹرکاروں سے خالی کر دیے تھے- سرکاری دفاتر کا تمام سامان انگریز افسر ہندوستان لے کر چلے گے تھے-
افغان حکومت کا کردار بھی بہت منفی تھا- اس نے پاکستان کے قبائل علاقوں پر قبضہ کر دیا- حتیٰ کہ گورنر کندھارنے پاکستان پر حملے کے لئے ایک بہت برا لشکر بھی تیار کیا تھا- اس حوالے سے جنرل صاحب نے مزید لکھا کہ مجھے کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ ہندوؤں کے کار خانوں میں کام کرنے والے مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا ہنر ہندو شاگردوں کو سیکھائیں- اس طرح جلد ہندو اس معاملے میں خود کفیل ہو گۓ اور ان مسلمان کاریگروں کی اولاد بے روزگار ہو گئی- پاک فوج میں موجود برطانوی فوجیوں کے بارے میں وہ لکھتے ہیں- ہر روز ہماری خفیہ معلومات برطانوی حکومت کو پہنچائیں جایئں- ہماری فوج میں انگریز مخبر تھے- ہماری رپورٹوں اور منصوبوں کو منسوخ کر دیا جاتا- اس وقت پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل گریسی مسلسل جنرل بوشر (بھارتی فوج سربراہ) سے رابطے میں رہتے- مجھے ایک پاکستانی فوجی افسر جنرل قریشی نے بتایا کہ جنرل بوشر کو جنرل گریسی نے خط بیجھا ہے کہ کشمیر میں قبائلی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں لہٰذا بھارت اپنی فوج کشمیر بیجھے کیوں کہ ابھی پاکستانی فوج اس قابل نہیں ہوئی- اس نے کشمیری فوج اور مجاھدین کو شدید نقصان پوہنچایا- جنرل گریسی کے بارے میں مزید لکھا گیا ہے کہ جب جنرل گریسی جنگ بندی کی شرائط طے کرنے دہلی گیا، تو اس کے پاس نقشہ بھی نہی تھا- اسے جنرل بوشر نے نقشہ دیا جو کہ ایک لاکھ میل فی انچ پر مشتمل تھا- اس پر متعلقہ مقامات کی نشاندہی کرنا نہ ممکن تھا مگر گریسی نے نشان لگا کر کئی بہترین علاقے دشمن کے حوالے کر دے-
قائد اعظم اسے اور باقی تمام انگریزوں کو جلد از جلد ملک سے بھیج دینا چاہتے تھے- لیکن اس کی وفات نے اسکو موقع بنا دیا- فوج کے چند بڑے افسروں کو راولپنڈی کیس جیسی فرضی سازشوں میں پھنسا کر گرفتار کر لیا گیا جس سے فوج میں ایک بڑا اخلا پیدا ہوا اور برطانوی افسروں کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی گئی-
یہ تھا ان حالات کا مختصر جائزہ جن سے اس ملک کو اپنے قیام کے وقت نبرد آزما ہونا تھا- ہر ایک کو یقین تھا کہ ان سازشوں کے سامنے پاکستان ٹک نہیں سکے گا- لیکن قائد اعظم نے ان سازشوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا- انہوں نے اپنی تمام تر توجہ پاکستان کی سالمیت پر مرکوز کر رکھی- ان حالات سے پتا چلتا ہے کہ قائد اعظم اور پاکستان پر الله کا خصوصی سایہ تھا اور ہے- ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا وہ یہ بڑھنے کے بعد سوچ سکتے تھے کہ کوئی ایسا ملک دو سال تک بھی چل پاۓ گا- لیکن الله کی مہربانی سے یہ ملک قائم ہے- ایٹم بھی ہے اور دنیا کی بارھویں بری معیشت بھی ہے- یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد واقعی یہ اس ملک کی سلامتی ایک معجزہ ہے- لیکن میں اپنی کمتر سوچ اور عقل کے ساتھ یہ کہوں گی کہ یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم رہے گا- بس ذرا اپنی سوچ کو درست کرنے کی ضرورت ہے- ہمارے پاس اب بھی وقت ہے- اگر ہم اپنے انددر سے صرف ایک برائی مطلب اپنی ذہنی پستگی، جس کی بہت قسمیں ہیں کو ٹھیک کر لیں تو ہمارا ملک دنیا کی سب سے عظیم فلاحی مملکت سے دور نہیں- ہمیں جھوٹ، فریب دھوکہ اور کوررپٹشن جیسی لعنتوں کو چھوڑ کر سچ، خود اعتمادی، راست بازی کو اپنا نا ہو گا- انشاءالله دنیا دیکھے گی کہ ایک سچی فلاحی ریاست کیسے کہتے ہیں-