جس معاشرے میں موت زندگی سے سستی ہو اس معاشرے میں روشنی کا کاروبار ہمیشہ مندا رہتا ہے موت بیشک زندگی کی حفاظت کرتی ہے پر حفاظت کرنے اور خوفزدہ میں فرق ہوتا ہے .حالات نے ہما موت سے خوفزدہ رہنے کی عادت دال دی ہے . ہر لمحے ایک نئی لاش کبی کوئی اپنا تو کبی کوئی پرایا . کب کس کو کون مر دے کوئی خبر نہیں اور یہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا کن کے ہمارے عمل ہی اسے ہیں ایک حدیث جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس معاشرے میں زنا عام ہو جائے گا وہا اچانک اموات کثرت سے ہوں گی ہمارے ملک میں روز ١٠٠ یا ١٥٠ لوگ غیر طبی موت مر رہے ہیں اس تعداد میں حادثات اور دہشت گردی کے شکار لوگ زیادہ ہیں یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ نہ تو ہم دہشت گردی کو روک پاے اور نہ ہی ٹریفک حادثات کو اور نہ ہی ہماری حکومت اس طرف کوئی توجہ دیتی ہے اور دے بھی کن انہوں نے خود تو جس سڑک پر سے جانا ہوتا ہے وو سڑک ہی خالی کروا لی جاتی ہے . ٹریفک حادثات میں جانی نقصان ک ساتھ ساتھ ملی نقصان بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اس صورت حال کی بنیادی وجہ تعلیمی پسماندگی اور قانون کی علمداری کا فقدان ہے ہمے سڑکوں پے اسے بیشمار ڈرائیور نظر آے گے جن کے پاس ڈرائیونگ لائسینسہی نہیں ہوتا ایک اندازے کے مطبق ٩٠ فیصد لوگ اسے ہیں جو ڈرائیونگ لائسینسہیکو ضرورت ہے نہیں سمجتے اسی وجہ سے اکثر حادثے کے بعد ڈرائیور موقے سے فرار ہو جاتے ہیں بعد میں پولیس اور سواری مالکان کی مدد سے کسی لائسینسہی والے ڈرائیور کو پیش کر دیا جاتا ہے جن کی آسانی سے ضمانت ہو جاتی ہے . اگر قانون سخت ہو تو بہت سے حادثات کو روکا جا سکتا ہے ہنارے ہان قانون سب کے لیے ایک جیسا نہیں ہوتا اچھی سڑکے بنانے سے لے کر ٹریفک نظام کی بہتری تک کچھ بھی نہ ممکن نہیں صاحب اختیار اگر اپنی اصلاح کر لیں تو منظر خوش گوار ہو سکتا ہے اور بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں
ٹریفک حادثات اور پاکستان
Posted on at