چلاس سے اگلے روز صبح ہم ضلع استور کے لئے روانہ ہوئے۔استور کو ضلع کا درجہ پانچ سال ہوئے دیا گیا ہے ضلع استور رقبے کے لحاظ سے اتنا بڑا نہیں ہے ضلع استور میں دو طرح کے فرقے کے لوگ ہیں ایک شیعہ اور دوسرے سنی یہی وجہ ہے کہ جب استور کو ضلع کا درجہ دیا تو سنی اور شیعہ دونوں فرقوں کے بیچ ہیڈکواٹر کے معاملے کی وجہ سے بہت بڑا تصادم ہوا تھا اور کافی قیمتی جانے اس میں ضائع ہوئی تھی سنیوں کی آبادی استور میں زیادہ ہے اور وہ چاہتے تھے کہ ہیڈکواٹر ان کے علاقے میں ہو اور ان کا علاقہ استور کا عئین سنٹر بھی تھا مگر شیعہ لوگ اس کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے اور وہ کہتے تھے کہ ضلع کا ہیڈکواٹر ہر حال میں ان کے علاقے میں ہو آخر کار ایک تصادم کے بعدعدالت سے حکم جاری ہوا کہ ضلع کے کچھ دفاتر سنیوں کے علاقے اور کچھ شیعوں کے عللاقے میں ہونگے۔ضلع استور کی مقامی زبان شینہ ہے۔
چلاس سے آگے رایکوٹ کے پل سے ایک روڈ ضلع استور کو جاتا ہے ضلع استور ایک پہاڑی علاقہ ہے اس لئے اسکو جانے والی روڈ پہاڑوں کو کاٹ کے بنایا گیا ہے مگر استور کو جانے والی سڑک پکی ہے سڑک کے ایک طرف پہاڑوں پہ جنگلات تو دوسری طرف دریا استور۔قدرت کے اس حسین تخلیق کو دیکھ کر انسان خدا کی قدرت کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ضلع استور نانگاپربت کے بلکل دامن میں واقع ہے جو دنیا کی نوئے نمبر کا بلند ترین پہاڑ ہیں دنیا کا اس کے شمال میں وادی رما ہے جو اپنے خوبصورت جھیل رما کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور یہاں سے کوہ ہمالیہ کی بلند ترین چوٹی بھی نظر آتی ہے۔یہ علاقہ سیاح کے لئے ایک منفرد مقام رکھتا ہے اسی وجہ سے حکومت پاکستان نے سیاح کے ریائش کے لئے پی۔ٹی،ڈی ۔سی ہوٹل کا بنا رکھے ہیں۔
اس کے جنوب میں دو چھوٹی دریا ملتی ہے ویاں وادی لاوزی ہے اس کی آبادی بہت کم ہے اور اس علاقے کے پڑھے لوگوں کی شرح پچانوے فیصد ہے۔اس علاقے میں ہر طرف بادام اور چیری کے باغات ہی باغات ہے جیسے یہاں کے مقامی لوگ ملک کے مختلف شہروں میں لے کے جاتیں ہیں اس کے علاوہ یہاں کے لوگ باداموں سے اس کا تیل میں نکالتے ہیں۔اس علاقے میں ایک ہزار میگاوارڈ کا بجلی گھر بھی ہے جو ۱۹۸۷میں بنا اور یہاں سے پورے ضلع کو بجلی فراہم کی جاتی ہے۔اس وادی کو چاروں طرف سے نانگا پربت چھاگری راپول چھونگرا اور لیلا کی بلند ترین چوٹوں نے گہرا ہوا ہے۔
نانگا پربت سے ۸۱۲۶ میٹر کے شمال میں وادی راپول واقعہ ہے یہ علاقہ راپول پہاڑ کی وجہ سے بہت مشہور ہے اور پہاڑوں میں موجود برف کے پگھلنے سے جو دریا بن جاتی ہے اس دریا کو دریائے راپول کہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ضلع استور کے مختلف چھوٹی وادیوں میں تراشینگ اور پارشینگ مشہور ہے ان وادیوں میں آپ ہر طرف مختلف پھلوں کے باغات سبزہ اور درخت دیکھٰیں گے جب انسان اس علاقے میں جاتا ہے تو دل نہیں کرتا کہ واپس آ جائے کیونکہ ہر طرف قدرت کا شاہکار نطر آتا ہے۔ہم سب چار روز ضلع استور میں رہیں چار دن ضلع استور میں رہنے کے بعد ہم سب ضلع گلگت کی طرف نکل پڑیں۔
شکریہ