اس قسم کی عادات اور خودنمائی ، ستائش حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے حضرات شادی کے بعد بھی ایسی حرکات جاری رکھیں تو اس سے گھر کا سکون اور ماحول برباد ہو جاتا ہے۔ خواتین کے سامنے چہکنا اور بڑھ چڑھ کر باتیں کرنا ، خواتین کو متاثر کرنے والے صاحب گھر میں شعلہ بیان نظر آتے ہیں ایک طرف جہاں وہ غیر خواتین کو متاثر کرتے وقت وہ شیریں ذبان اور شہد کی مٹھاس والا لہجہ رکھتے ہیں تو گھر میں بیگم کے ساتھ بات کرتے وقت منہ سے آگ اگل رہے ہوتے ہیں اور یہی عمل ان کی ازدواجی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لے جاتی ہے۔
جس طرح کوئی مرد یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی منگیتر ، بیوی یا گھر کی کوئی بھی عورت غیر مردوں سے ہنس ہنس کے بات کرے تو اسی طرح ایک بیوی بھی ہر گز برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کا شوہر خواتین سے ہنس ہنس کر بات کرے اور اپنی تعریفیں کرواتا نظر آئے ، اس سارے تناظر میں قصور وار مرد ہے تو عورت کا بھی قصور ہے ، کیونکہ مرد کا رجحان وہاں سے نظر آتا ہے جہاں امید ہو کہ سامنے اسے مرضی کے مطابق نہیں تو کم سہی لیکن جواب ضرور ملے گا۔
ان کا چہکنا ، مسکرانا ، ہنسی ، مذاق خواتین کے جواب سے منسوب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صاحب نے مزاق میں کہا کہ جہاں شمع ہو وہاں پروانے تو آئیں گے ۔۔۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن شمع کے بجھتے ہی پروانے اپنے پر جلانے کے بعد اردگرد بکھر جاتےہیں۔ یہی حال کبھی کبھار ہنستے بستے گھروں کا بھی ہو جاتا ہے جو جل کر خاک ہو جاتے ہیں اس لئے وقتی تفریحی اور وقت گزاری کی غرض سے یا خود کو نمایاں یا ستائشی کلمات سننے کی غرض سے اکثر ایسے مردوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک صاحب اپنا ایک تجربہ بیان کیا ہے کہ انہیں خواتین سے دوستیاں کرنے کا شوق مہنگا پڑ گیا شادی سے قبل انہیں خوتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے اور ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا بے حد شوق تھا اور اس شوق کے باعث ان کی دوستیاں بھی رہیں وہ جہاں پوسٹنگ ہو کر جاتے وہاں خواتین سے گھلتے ملتے اور پھر کچھ عرصے کے بعد پرانی دوستیوں کو خیر آباد کر کے بٓنئی دوستیاں کر لیتے۔