جنگ سفائن
قبرص کی فتح کے تین سال بعد ۳۱ھ میں رومی ایک زبردست فوج لے کر مسلمانوں کے مقابلے میں آۓ اور پانچ سو جنگی کشتیوں کے بیڑے نے ان پر حملہ کر دیا ، عبداللہ بن سعد نے اسکندریہ کے قریب دو سو جنگی جہاز تیار کر رکھے تھے اور نوجوان فوجیوں کی خاصی جماعت بھی مستعد تھی ۔ دونوں فریق آمنے سامنے ڈٹ گئے ۔ آخر رومی کشتیاں اس قدر قریب آ گئیں کہ دونوں طرف کی کشتیوں کے مستول آپس میں ٹکرانے لگے اسی لیے اس جنگ کو موقعہ الصواری یعنی مستولوں کے ٹکرانے والی جنگ بھی کہا جاتا ھے۔ ہوا بہت تیز چل رہی تھی اس نے کشتیوں کو دھکیل کر کنارے پر پہنچا دیا اور مسلمانوں نے اپنی کشتیان ایک دوسرے کے ساتھ باندھ لیں ۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ ایک کشتی کے سپاہی دوسری پر نظر آنے لگے ۔ سمندر کے ساحل کا پانی فوجیوں کے خون سے سرخ ہو گیا۔ لاشیں کٹ کٹ کر پانی میں گرنے لگیں ، دور دور تک پانی کی موجوں میں سرخ خون اور تیرتی لاشوں کے سوا کچھ نہ نظر آتا تھا۔ دونوں طرف کی فوجوں کے بے شمار سپاہی قتل ہوۓ ۔ رومی پلٹ کر بھاگنا چاہتے تھے لیکن پیچھے بھاگنے کی جگہ نہ تھی ۔آخر کار ان کا سپہ سالار جزیرہءسرقوسہ کی طرف بھاگ نکلا۔
یزگرد کا قتل
یزگرد بن شہریار بادشاہِ فارس حضرت عمرؓ کے زمانے میں تخت پر بیٹھا۔ یہ وہی بادشاہ تھا جس نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کیلیے رستم کو ایک زبردست لشکر کے ساتھ روانہ کیا تھا لیکن اسے شکست ہوئی ۔ کہا جاتا ھے کہ یزگرد ایک چھوٹی سی جماعت لے کر مرو کی طرف بھاگا تو مرو کے ایک زمیندار نے اس کا سامان چھین لینے کی کوشش کی ۔ بادشاہ نے ترکوں سے مدد مانگی انہوں نے بادشاہ اور اسکی جماعت کو زمیندار کے ہاتھ سے چھڑا لیا رات کو اپنے ہاں ٹھہرایا اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا ۔ یزگرد بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگا۔ ایک سنگ تراش نے اسے اپنے ہاں ٹھہرایا اور جب وہ سو گیا تو اسے قتل کر دیا ۔ مرو کے لوگوں کو پتہ چلا تو انہوں نے سنگ تراش کو قتل کر کے شاہی سامان لوٹ لیا اور بادشاہ کی لاش کو ایک تابوت میں بند کر کے اصطخر بھیج دیا جہاں ۳۱ھ میں لاش دفن کر دی گئی ۔ اس طرح فارس کے آخری بادشاہ کا خاتمہ ہو گیا۔