میری کلاس میں ایک لڑکی شازیہ پڑھتی ھے وہ ایک فری پریڈ میں میرے پاس آئی اور کہنے لگئی میم مجھے آپ کے دو منٹ مل سکتے ہیں ؟؟
تو میں نے کہا کیوں نہیں بولیں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں میں سمجھی کے کوئی تعلیمی مدد لینی ھو گی اکثر لڑکیاں فری پریڈ میں ایسے آ جاتی ہیں
تو اس نے کہا میم آپ اپنے پرانے کپڑے کس کو دیتی ہیں میں اس کی بات سے حیران رہ گئی کہ یہ کیسا سوال ھے –
میں نے پوچھا کہ کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟
تو اس نے بتایا کہ میم میں بہت غریب گھرانے سے ھوں میرے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں بہت زیادہ امیر ہیں اور وہ روز میری پرانے کپڑوں کا مذاق اڑاتی ہیں میں اپنے گھر سے تعلیم کا خرچہ بہت مشکل سے لے رہی ھوں نئے کپڑے کہاں سے لوں؟ آپ کی جلدی شادی ھونے والی ھے آپ نے پرانے کپڑے کسی کو تو دینے ہیں مجھے دے دیں – اس کی بات سن کر پہلی بار میں نے اس کے کپڑے دیکھے جو واقعے ہی پرانے ھو گئے تھے لیکن سلیقے سے استری کر کے پہنے ھوئے تھے
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ھے کہ ہم کسی کی ذات پر بات کرتے ھوئے ایک منٹ بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں کیا حق پہنچتا ھے کسی کو کمتر کہنے کا یا کسی کے ذاتی معاملے میں ٹانگ آڑانے کا اگر کوئی امیر ھے اور اللہ کا دیا اس کے پاس سب کچھ ھے تو کیا ہمیں یہ حق مل گیا ھے کہ ہم جس کی چاہیں بےعزتی کر دیں کوئی خوف خدا نہیں ھے پلیز اس بات پر سوچیں ایک دن ہم نے بھی اللہ کو منہ دکھانا ھے جب یہ دکھی دل اللہ کو آپنی پریشانیاں بتائیں گے اور رو رو کر کہیں گے کہ اے اللہ تو نے انھیں دولت دی تھی اور ہمیں نہیں ہمارا کیا قصور تھا تو آپ کو اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا !!
پلیز سوچیں اور لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دینے سے گریز کریں
کیا پتہ وہ کس حالت میں زندگی گزار رہے ھوں،اور ویسے بھی جو کچھ ھمارے پاس ھے وہ بھی تو الله کا ھی دیا ھوا ھے تو تکبّر کس بات کا،لوگوں کو انکے لباس سے نہیں انکے اخلاق اور کردار سے پرکھیں ۔۔
لوگوں کو انکے لباس سے نہیں انکے اخلاق اور کردار سے پرکھیں ۔۔
Posted on at