وہ انتہائی شریر تھا ۔ اس کی شرارتوں سے گلی محلے کے بوڑھے ، بچے اور جوان سب ہی تنگ تھے۔ کسی کی نصیحت اس پر کارگر ثابت نہ ہوتی تھی۔ والدین اور بہن بھائیوں کو ستانا اس کا وطیرہ بن چکا تھا۔ نہ سزا کا اس پر اثر ہوتا اور نہ ہی کسی کی نصیحت کوئی کام دکھاتی تھی۔ والدین کو اس کی تربیت کی بہت فکر تھی۔ بلآخر انہوں نے اپنا یہ مسئلہ ایک اللہ والے کے سامنے پیش کیا۔ بزرگ نے اُنہیں دعاﺅں کے اہتمام، بچے کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت کا رویہ اپنانے اور اپنی روزی کو پاکیزہ بنانے کا حکم دیا۔ ساتھ ہی ساتھ چند روز کے بعد انہوں نے صورت حال سے آگاہی دینے کا بھی کہا۔ والدین نے بزرگ کے قول پر بھرپور عمل کیا تواس کا نتیجہ انہیں چند ہی روز میں صاف دکھائی دینے لگا۔ جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق کی ادائیگی لازمی ہے اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق ادا کرنا ضروری ہے۔ اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کر کے اسے معاشرے کا کامیاب فرد بنانا والدین کے اہم ترین فرائض میں شامل ہے۔ بہتر انداز تربیت سے بگڑے ہوئے بچوں کو راہ راست پر با آسانی لایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے بچے کی نفسیات کو جان کر حکمت و بصیرت سے اس کے ساتھ برتاﺅ روا رکھنا ہوگا۔ آج ہمارے معاشرے میںبگاڑ کا اہم سبب اولاد کی بہتر طور پر تربیت نہ ہونا ہے۔ بعض اوقات بچے کے ساتھ کی جانے والی حد سے زیادہ نرمی اور کبھی حد سے زیادہ روا رکھی جانے والی سختی بچے کے مستقبل کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ اولاد اپنے والدین سے سب سے زیادہ شفقت و محبت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ اولاد کا فطری حق بھی ہے کہ والدین اسے دل سے چاہیں اور اس کے سچے خیر خواہ بنیں ۔ اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں کہ دنیا کی ہر محبت کے پیچھے کوئی نہ کوئی غرض ضرور وابستہ ہوتی ہے لیکن والدین کی اولاد سے محبت ہر غرض اور لالچ سے پاک ہوتی ہے۔ وہ سختی کریں یا نرمی بچے کی بھلائی کی چاہت ہی اس سب کچھ کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ہر صورت میں حد اعتدال کو قائم رکھا جائے ۔ زیادہ سختی سے بچہ نفسیاتی طور پر ضدی ، ہٹ دھرم اور جھگڑالو بن جاتا ہے۔ بچوں میں اس احساس و شعور کا پیدا کرنا بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دنیا میں ماں باپ ہی اولاد کے حقیقی محسن اور ہمدرد ہیں۔ بچوں کو معاشرے کا ایک اہم فرد اسی وقت بنایا جاسکتا ہے جب ذہنی طور پر ان کی نشو نما بہتر ماحول میں اچھائیوں کی طرف کی جائے۔ اعمال قبیحہ کے اظہار کے موقع پر ان کی سرزنش بھی کی جائے اور بعد میں پیار و محبت سے سمجھا بھی دیا جائے تو اس عمل سے بچہ بہت کچھ سیکھ لیا کرتا ہے۔ ذہنی طور پر سب بچے ایک طرح کے نہیں ہوا کرتے۔ ادنیٰ ، متوسط اور کمزور تینوں طرح کے بچوں سے والدین اور اساتذہ دونوں کو واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کمزور بچوں کا مذاق اڑانا انہیں بزدل بنا دیتا ہے۔ وہ ہر کام میں ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے سے رہنے لگتے ہیں۔ جس بچے کو ہر وقت تنقید کا سامنا ہو وہ کسی چیز کو قبول کرنا پھر پسند نہیںکرتا کہ میری کسی بات پر کوئی اعتماد ہی نہ کرے گا۔ اس بات کو دیکھ کر وہ اپنے آپ کو بے کار و فضول سمجھنے لگتا ہے۔ ہر وقت کی مارپیٹ سے بچے کی قدرتی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں اور وہ اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ بچے پر اعتبار نہ کیا جائے تو وہ دھوکہ دینا شروع کردیتا ہے۔ جس بچے کی اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی کی جائے وہ پر اعتماد ہو کر اگلی بار اس سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چائیے کہ بچے کی بے جا خواہشات کا پورا کرنا اسے خود سری اختیار کرنے پر گویا مجبور کرنا ہے۔ والدین پر لازم ہے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت کے لئے انہیں دینی ماحول مہیا کیا جائے ۔ احکامات الہٰی پر عمل کرنے کی ترغیب اور برائیوں سے دور رکھنے کی ذہن سازی انتہائی ضروری ہے ۔ آج کل اولادیں حد بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں لیکن ضروری دینی احکامات سے تہی دامن رہتی ہیں۔ اولاد کے حقیقی خیر خواہوں کے لئے لازم ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو رول ماڈل بنایا جائے ۔ نیک اعمال کو پہلے خود اپنائیں جب کہ برے اعمال سے دامن بچا کر زندگی کا سفر طے کرنے کی کوشش کریں ،پھر جو بات اولاد سے کی جائے گی وہ اثر انگیزی سے بھرپور ہوگی۔ اولاد سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ علم اور اخلاقِ کریمہ کے زیور سے آراستہ کر کے انہیں معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے کے حامل افراد بنائیں۔
نسل کی تربیت
Posted on at