تاریخ عالم شا ہد ہے کہ آ نحضورﷺ کے سوا دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے اپنے دعوے کی صداقت کیلئے خود اپنی ہی زندگی کو مشال بنا کر پیش کیا ہو۔ یہ بڑاہی مشکل بلکہ نا ممکن کام ہے کہ کوئی مصلی، قائد یا پیشوا اپنی ہی زندگی کو اپنے دعوے کی صداقت کیلئے بطور دلیل پیش کرے آپ زندگی کے کسی دور میں ہوں اور آپ کو کسی بھی مرحلہ میں صیح ، بہتر اور پاکیزہ عملی نمونہ حیات کی ضرورت محسوس ہو آپ پیغمبر اسلام محمد ﷺ کو اپنے لئے کامل ترین معلم پا ئیں گے۔
ہر آدمی میں کو ئی کمزوری ہوتی ہے کبھی نہ کبھی اس سے کوئی ایسا فعل سر زد ہو جاتا ہے جسے کہ خود اس کی ںظر قابل گرفت قرار دیتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی آدمی ایسا پیدا نہیں ہو سکا جس کو خود اپنے اقوال واعمال میں نا پسندیدگی کا پہلو نظر نہ آتا ہو۔ یہ صرف حضورﷺ پر نور کی ذات یا بر کات ہے کہ جسے خدا وند کریم نے مکمل نمونہ بنا کر بھیجا اور حکم کے دیا کہ۔
کہ دوإ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے نقش قدم کی پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔
آپﷺ کی سیرت طیبہ مکمل اور حیات بہترین نمونہ ہے چونکہ خداوند تعالیٰ نے بھی آپ کی حیات طیبہ کو بہترین نمونہ قرار دیا۔ صرف آپ ہی کے حالات زندگی کی تاریخی طور پر حفاظت کی گئی اور صرف آپ ہی ایک ایسے شخص ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو کی دنیا کی نظروں کے سامنے اتبا ع اور پیروی کے لیے پیش کیا اور بار بار تاکید کی کہ جو کچھ میرے اقوال سنوإ اعمال دیکھو تو اسے چھپاوٗ نہیں بلکہ اسے دوسروں کے سامنے بھی پیش کرو صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے اولین اور شدید ترین دشمنوں کو بھی آپﷺ نے تبلیخ اسلام کے اولین مرحلے ہی میں خود اپنے کردار کو بطور دلیل پیش فرمایا آپﷺ کی سیرت طیبہ اور نیک اطواری سب کی نظروں میں ناقابل تردید تھی اس سلسلے میں سب سے بڑی تصدیق قرآن حکیم کے درج ذیل الفاظ ہیں۔
بلا شبہ آپ ﷺ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فا ئز ہیں۔
ام المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہ ؓ کے الفاظ میں بھی اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ "آپ ﷺ کا اخلاق قرآن ہے"۔
آنحضورﷺ تمام اعلیٰ اور ارفع انسانی خصوصیت کے مشالی مظہر اور جلیل القدر پیکر تھے۔ اگرچہ اس وقت کے معا شرے میں تمام برائیاں بدرجہ اتم موجود تھیں لیکن نبی کریمﷺ کا دامن شفاف رہا۔ اس معا شرے میں کہ جس میں محسن انسانیت نے آنکھ کھولی اور پلے بڑھے ، کذب و دروخ گو ئی جیسی برا ئیاں بلکل عام تھیں۔ آپﷺ کو راہ حق سے باز نہ رکھ سکے (حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ " جب جنگ بہت گرم ہو جاتی تو آپ ﷺ کے سایہ میں عا فیت پاتے۔ آپﷺ دوران جنگ سب سے آگے ہو تے تھے"۔
شہادت کا اس قدر شوق تھا کہ ایک مرتبہ فرمایا " میری آرزو ہے کہ خدا کی راہ میں شہید کیا جا وٗں پھر زندگی ملے دوبارہ شہید کیا جاوٗں، پھر زندگی ملے تیسری بار شہید کیا جاوٗں"۔
آپ ﷺ کی زندگی بہت سادہ تھی۔ سادہ کھانا کھاتے تھے۔ سادہ لباس پہنتے تھے اور صفا ئی اور پاکیزگی کا خیال رکھتے۔ گھر کے اکثر کام خود کرتے۔ اپنے کپڑوں میں پیوند لگا لیتے۔ یہاں تک کہ آپ کا جوتا پھٹ جاتا تو اسے بھی مرمت کرلیتے۔ بچوں سے انتہائی شفقت سے پیش آتے پھر امیر و غریب کی دعوت قبول کرلیتے محفل میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ سلام میں سبقت فرماتے اور دوران گفتگو کوئی ایسی بات نہ کرتے جن سے دوسروں کی دل آزاری ہوتی۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ سے فرمایا کہ " تم نہیں جاہتے کہ دنیا داروں کے لیے صرت دنیا ہو اور ہمارے لیئے آخرت ہو" آپ ﷺ کی زندگی اس قدر سادہ تھی کہ ناواقف لوگوں کے لیے آپ کو پہچا ننا مشکل ہوتا ہے۔
آپﷺ مساوات کے حامی ، نہا یت روادار اور ملنسار تھے۔ آپ ﷺ کی نظروں میں چھو ٹے بڑے ، امیر و غریب اور آقا و غلام کا کچھ امتیاز نہ تھا۔ سب کو برابر سمجھتےاور سب کے ساتھ یکساں برتا وٗ فرماتے۔ آپ ﷺ کی نظر ہر کس و ناکس کیلئے خورشید دار تھی۔ مساوات کے اس قدر دلدادہ تھے کہ خطبہ حجتہ الوداع میں فرمایا "لوگو تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کے سبب سب ہے۔
الغرض آپ ﷺ کی ذات گرامی رقت قلب ، زحد ، عفت اور عصمت حسن معاملہ ، حسن خلق ، عدل وانصاف ، جود و سخا ، ایثار ، قربانی ، محبت و رحمت ، زھد و قناعت ، صداقت وا امانت ، تواضع اور مساوات ضبط و نظم ، علم وانکسار عفو درگزر ، حسن سلوک ، عیادت و تعزیت ، مہمان نوازی ، شہا مت و شہادت گداگری سے نفرت اور حاجت روائی جیسے شرافت انسانی کے جملہ اوصا ف اور کمالات کی جامع تھی۔
بقول اقبال
وہ دانا ئے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل ، جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق میں وہی اول ، وہی خر
وہی قرآن ، وہی فر قان ، وہی یٰسین ، وہی طہ
حضور نبی کریم حضرت محمد ﷺ غیر مسلمو ں کی نظر میں۔
محسن انسانیت نبی کریمﷺ کی ذات گرامی پر تبصرہ کرتےہوئے کہتا ہے۔
محمدﷺ کی ذات ایک مرکز ثقل کی طرف لوگ کھینچے چلے آتے تھے۔ ان کی تعلیمات نے لوگوں کو اپنا مطیع اور گرویدہ بنا لیا اور ایک گروہ پیدا ہو گیا جس نے چند ہی سال میں نضف دنیا میں اسلام کا غلغہ بلند کر دیا۔ اسلام کے ان پیروں نے دنیا کو جھو ٹھے خداوٗں سے چھڑا لیا۔ انہوں نے بت سرنگوں کر دیئے موسیٰ اور عیسیٰ کے پیروں نے پندرہ سو سال میں کفر کی نشانیاں اتنی منہدم نہ کی تھ جتنی ان متبعین اسلام نے صرف پندرہ سال میں کر دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محمدﷺ کی ہستی بہت ہی بڑی تھی۔
پنڈت گوپال کرشن
گوبال کرشن "ایژیٹر بھارت سما چار بمبئی" "مہاپرش" کے عنوان سے آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ یوں پیان کرتا ہے۔
محمد ﷺ کی زندگی پر جب ہم وچار کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ خدا نے انہیں سنسار کو سدھارنے کے لیے بھیجا تھا۔ ان کے اندر وہ شکتی موجود تھی جو کہ گریٹ ریفارمر (مصلح ا عظم ) اور ایک مہا پرش (ہستی اعظم) میں موجود ہونی چا ہیے۔
لین پول
مشہور یورپین محقق لین پول رقمطراز ہے۔
محمد ﷺ نہایت با اخلاق اور رحمدل بزرگ تھے۔ ان کی بے ریا خدا پرستی اور عظیم فیاضی مستحق تعریف ہے۔ بے شک آپ ﷺ مقدس پیغمبر تھے۔
کا و نٹ ٹالسٹا ئی
مشہور روسی محقق کاونٹ ٹالسٹا ئی رقمطراز ہے۔
حضرت محمدﷺ دنیا میں عظیم مصلح بن کر آئے تھے اور آپﷺ میں ایسی برگزیدہ قوت پائی جاتی تھی کہ قوت پشری سے بہت زیادہ ارفع واعلیٰ تھی۔
جارج برنارڈ شا لکھتا ہے۔
از منہ وسطی میں عیسائی را ہبوں نے اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے بڑی بھیانک تصویر کی صورت میں مذہب اسلام کو پیش کیا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہی ہوتی انہوں نے حضرت محمد ﷺ اور آپ کے مذہب کے خلاف با ضابطہ تحریک چلائی۔ میں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محمد ﷺ عظیم تھے اور صیح معنوں میں انسا نیت کے نجات دہندہ۔