یوں تو وطن عزیز میں ہر چیز کابل غور ہے- حکومتوں سے لے کر فقیروں تک ہماری حکومت کے کیا ہی کہنے- اہے روز اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں- اور ہمارے سیاستدان تو ووٹ ایسے مانگتے ہے جیسے قیمتوں میں نہیں سہولتوں میں اضافہ کیا ہو اور آج کل کے فقیر حضرت کے بی کیا کہنے ایک ہاتھ میں موبائل اور دوسرے میں کٹورا تھامے کھڑے بھیک مانگتے ہیں کہیں خوش قسمتی میں دو چار پیسے ہاتھ آ جائے تو اسی وقت ایس ایم ایس کر کے دوسروں کو بتایا جاتا ہے ک فلاں پارٹی ا رہی ہے چوکنا رہنا
فقیروں ور حکومتوں کو چھوڑے آج کل تو ہمارے ہاں جنازے بھی قابل غور ہے- لواحقین کے لئے یہ قیامت کا اور باقی لوگوں کے لئے تو جیسے انھیں کسی نے ون ڈش پارٹی پر بلایا ہے- اب تو لگتا ہے ک جس طرح سے لوگ جنازے اٹینڈ کر رہے ہے کچھ عرصے بعد یہ کہے گے کے یار یاد ہے ہم نے علی صاحب کے جنازے پی کتنا انجوے کیا تھا اور کھانا تو کمال کا تھا- آج کل تو لوگ میت کے بجاۓ میت کے خاندان والوں پر زیادہ نظر رکھتے ہے کہ دیکھا تو جائے کون کتنے پانی میں ہے کون کتنا رویا اور کون زایدہ غمگین ہے اور کس نے آنسوں کے ندی نالے بہا دیے گویا کے وہاں کسی کی وفات نہی ہوئی بلکے رونے کا مقابلہ ہے اور وہاں انے والے لوگ جج حضرات
اور تو اور میت کے پاس بیٹھنے والی عورتوں کے تو کیا ہی کہنے ان کا مرنے والے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا پر میت کے پاس بیٹھ کے ایسے بین کر کے رویے جا رہی ہوتی ہے جیسے ان کے علاوہ مرحوم کا کوئی اور ہے ہی نہیں.کچھ عورتیں تو خاص اپنے رونے کی وجہ سے مشہور ہوتی ہے کہ تم نے خالدہ خالہ کو دیکھا کتنا اچھا روٹی ہے بلکل اصلی لگتا ہے تم نے علینہ باجی کو دیکھا ہے ان سے اچھا تو کوئی روتا ہے نہیں – کچھ عورتیں تو ایسے ہاتھ ہلا ہلا کے بین کرتی ہے جیسے وہ ہاتھوں میں پہنے کنگن سب کو دیکھا رہی ہو ور جیسے ہی ان کنگنوں کو دیکھ کے کسی کے ماتھے پے بل پڑتے ہے تو وو خوشی سے چیخے مار کے پھر رونا شروع کر دیتی ہے اک دفع تو اک آنٹی کے جواب پے میری ہنسی نکل گی میں نے ان سے پوچھا کے اپ رو نہیں رہی ور بار بار ناک کیوں صاف کر رہی ہے تو اگے سے کہنے لگی کہ آنسوں سے میرے لینس خراب ہوتے ہے