آج ہم دنیا کی اس دوڑمیں اتنا آگے نکل چکے ہیں اور کاموں میں اتنا گم ہو چکے ہیں کہ ہم حلال اور حرام کا فرق بلکل بھول چکے ہیں اور یہ بھی بھول گئے کہ آخرت میں اس کا حساب ہو گا اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اپنے پیسے کو اپنی جایئداد کو دگنا کرنے کے چکر میں ہم بے کار ہوچکے ہیں ہمارا ذہن کوئی دوسری بات سوچتا ہی نہیں بس یہی دل چاہتا ہے کہ ہماری دولت سب سے زیادہ ہو جائے جبکہ ہر شخص کا رزق اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے وہ اسے ہر صورت ملتا ہے اب وہ اس رزق کو حلال طریقے سے لیتا ہے یا حرام یہ اس شخص پر منحصر ہے
اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو لوگوں کی اکثریت ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال اکٹھا کرنے میں لگی ہوئی ہے انسان نے حرام کمانے کے لیے بہت سے راستے اختیار کررکھے ہیں مثلا ملاوٹ ،رشوت، سمگلنگ وغیرہ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ ان کاموں کو گناہ نہیں سمجھتا بلکہ ضرورت سمجھ کر کیا جاتا ہے اسلیئے کوئی شخص یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ واقعی حلال کما رہا ہے اللہ تعالی اور اسکے رسول کا فرمان ہے کہ رزق صرف حلال طریقوں سے کمایا جائے اور اگر حرام کا ایک لقمہ بھی پیٹ میں چلا جائے تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے
حضورﷺ کا فرمان ہے کہ پاکیزہ کمائی کا مالک وہ تاجر ہے جو جھوٹ نہ بھولے ،گاہک کو صحیح چیز دے ،تول میں کمی نہ کرے چیز کی بے جا تعریف نہ کرے ،وعدہ خلافی نہ کرے اور خیانت نہ کرے ایک اور جگہ آپ ﷺ کا فرمان ہے جو بندہ حرام کماتا ہے وہ صدقہ کرے تو قبول نہیں، خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں اگر چھوڑکر مرے تو جھنم میں جائے گا
ایک حدیث میں آتا ہے کہ حصول رزق حلال عبادت ہے بے شک آج جکل مہنگائی کا دور ہے آمدنی کم ہوتی ہے اخراجات پورے نہیں ہوتے لیکن آج اگر ہم اللہ تعالی کی ذات پر پورا بھروسا کریں اور حلال آمدنی پر گزارہ کریں تو اللہ ضرور مدد کرے گا اور اسی آمدنی میں برکت ڈال دے گا