اسلامی دنیا اور پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں ۔ گو ہر مسلمان کا دل اس جذبے سے سرشار ہے کہ وہ عظمت اسلام کے لیے کچھ نہ کچھ کر گزرے گا۔ لیکن حقائق اور واقعات کی تصویر یہ ہے کہ کہ عالم اسلام میں خلیج روز بروز گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کفر جو "ملت واحدہ" ہونے کی حیثیت سے ہر اسلامی ملک کے دینی تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہے اور عالم اسلام کی نظریاتی بنیادوں کو مسمار کرنے کے لیے ہر طرح کت جدید اسلحے سے لیس ہے۔ کبھی وہ قومیت کے نام پر مسلمان مسلمان کو لڑاتا ہے اور کبھی ثقافت کے نام پر ایسے رسوم و رواج اور عادات کو اسلامی معاشرے میں رائج کرتا ہے جن سے اسلامی ثقافت اور معاشرت کی بنیاد متزلزل ہو رہی ہے۔
اسلام کے بدترین دشمنوں نے پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت کو ختم کیا۔ عرب ملکوں کو تقسیم کر کے اتنی چھوٹٰی چھوٹی حکومتیں بنائیں کہ عالم اسلام کو اس مرکزی خطے کی طاقت کفر کے مقابلے میں کبھی ایک نہ ہو سکی ۔ یہی وہ عالم اسلام کے نام نہاد خیر خواہ ہیں جنہوں نے فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیل کی ہر ممکن سر پرستی کی اور انھیں اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ عراق کو ایران اور عربوں سے لڑایا۔ اسلامی سربراہوں کے درمیان اندرون ملک بغاوتیں کروائیں اور ان کی حکومتوں کو کمزور کیا اور پاکستان جسے اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اسے دو لخت کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی پستی کا علاج کیا ہے۔ امت مسلمہ پستی اور ذلت کی اس کیفیت سے کیونکر نکل سکتی ہے۔ اس مسئلے پر غور کیا جائے اور خدا عقل سلیم بھی دے تو ایک دم قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے اور کہتا ہے۔
"تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے آپس میں تفرقہ ڈالا اور باہم تنازعہ پیدا کیا جب کہ اس کے پاس واضع احکام پہنچ چکے"۔(آل عمران۔105)
قرآن حکیم عالم اسلام کی توجہ اس طرف مبذول کرا رہا ہے کہ امت مسلمہ کی تمام مصیبتوں کا علاج اتفاق و اتحاد میں ہے اور اس اتفاق و اتحاد کی بنیاد رنگ و نسل اور لسانی ہم آ ہنگی نہیں بلکہ وہ رشتہ واحد ہے جسے حضورﷺ نے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم کیا ۔ اسی لیے قرآن نے فرمایا کہ " مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں"۔ ان بھائیوں میں اختلاف اور نفاق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اختلاف اور نفاق ایک ایسا مرض ہے جس سے قوموں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اسی لیے اقبال نے بھی اپنے اس شعر
"ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر"
میں تمام امت مسلمہ کو یہ بات بتا دی ہے کہ مسلمانوں کو عالم اسلام کی بھلائی کے لیے ایک ہونا ہے۔ جب تک ہم مسلمان ایک نہیں ہوں گے بیرونی طاقتیں ہم پر حکومت کرتی رہیں گی اور ہمارے حکمران ان کے سامنے کٹھ پتلی بننے پر مجبور ہو جائیں گے۔
آج کا مسلمان اپنے آپ کو دنیا کے کسی کے خطے میں محفوظ تصور نہیں کر سکتا کیونکہ عالم اسلام میں اتفاق و اتحاد نہ ہو نے کی وجہ سے ہم پر بیرونی طاقتوں کا اور کفر کا غلبہ ہے اور کافر عالم اسلام کو روز بروز مزید کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔اس لیے اگر ہم عالم اسلام کو اور پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو ایک ہونا ہو گا تاکہ کفر کی کوئی بھی سازش کامیاب نہ ہونے پائے۔ ہمیں قرآن نے بھی یہ بات صاف صاف بتا دی ہے کہ کفار کبھی بھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا اگر ہم صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کا دور واپس لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اقبال کے شعر کے مطابق حرم کی پاسبانی کے لیے ایک ہونا ہو گا