ہمارے مھشرے میں کسی بھی لڑکی کی شادی کا ذکر ہو ذہین میں جو سب سے پہلے خیال اتا ہے وو جہیز ،دورے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ شادی اور جہیز کے بغیر والدین کے لئے لڑکی کو رخصت نہ ممکن ہو جاتا ہے،جہیز کی لعنت ہمارے جیسے مسلم معاشرے میں ایک ایسے معاشرت میں میں جہیز کی لعنت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جیسے کہ الز آسان نہیں کتنی ہی جوانیاں جہیز پورا کرنے کے انتظار میں والدین کے گھر میں بٹہے بوڑھاپے کی دہلیز پر جا پہنچی تی ہیں ،ایک ایسا معاشرہ میں جہاں آئے دیں غیرت کے نام پر کبھی ماں ،بہن اور بیٹیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے وہاں جہیز کے لیں دیں کے معملے پر ہماری غیرت بےخبری کی چادر ورہ کر سوجاتی ہے حتیٰ کہ باز واقات میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جہیز کی آگ شادی کے بعد بھی بجھنے کام نام نہیں لیتی
لڑکی والی شادی کے بعد بھی تر ترا کا موطلبہ کرتے ہیں اور اگر انکو پورا نہ کیا جاے تو لڑکی کی زندگی کو ایک بار پھر لان تان اور آزمائشوں کی بھتی سے گزرنا پڑھتا ہے،یہاں تک کہ کبھی کبھی من مانا جہیز نہ دینے کی اوش میں لڑکی کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑھتا ہے،اور گاؤں دیہات میں اکثر و بیشتر چولہے فت جانے کے بہانے سے لڑکی کو زندہ جلا کر مارا بھی جاتا ہے اسس ترھا ایک دوسرے جہیز کا بندوبست کیا جاتا ہ
جہیز کے لیں دیں کے حولے سے اگر ہم پاکستان کی گیور اور بہادر قوم کی رسومات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بلوچستان کے علاقہ میں ''ویلور''جسے حرف امم میں جہیز کہا جا سکتا ہے،اس رسم کو ادا کرنے میں رقم کی مالیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو یقینن ایک غریب اور موتوست طبقہ سے باہر ہو جاتا ہے،اس کے باوجود بیٹی کی شادی کرتے فرنیچر ،کپڑے برتن اور زیورات وغیرہ دو سے تین لکھ تک کا سامان دیتا ہے بقایا شادی کے بعد رقم قسطوں میں کیں بیٹی کا باپ سے وصول کی جاتی ہیں ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا لڑکی کی شادی میں لڑک ے والوں کو یہ رقم لینا جائز ہے؟اور پھر اس رقم سے کھانا پینا حلال ہے یا حرام ؟
شادی بیاہ کے معاملات سادگی اور خوشی سے تے ہونے چاہیئے مگر اس جہیز کی لعنت کی وجہ سے غریب والدین شدید تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش کو رحمت سمجھنے کے بجاے زحمت سمجھا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز کی رسم کے خلاف لوگوں کی سوچ کو تبدیل کیا جائے اس لعنت کے خلاف سمجھایا جائے -سیاسی اور مذہبی ساتہ پر موھم اخذ کی جائے -تا کہ لوگ اس بری لعنت سے بچ سکیں
:
اس ضمن میں ایسے سخت قوانین وظا کیے جائیں جس سے جہیز کے لیں دین کو روکنا مومکن ہو سکے -اس ضمن میں لڑکی کا کردار بوہت اہم ہیں،اگر ہر لڑکا اپنی شادی کے وقت یہ کہ دے کہ اسے جہیز کے نام پر لڑکی والوں سے کچھ نہیں چاہے تو اس رسم کے خاتمے کی امید کی جا سکتی ہے،دوسرے لڑکے والوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا پڑے گا کہ اگر آج وو اپنے لڑکے کی شادی میں جہیز لینے انکار کر دیں تو کل کو انکی بھن بیٹیوں ،بھی آسانی سے اپنے اپنے گھروں کی ہو جائیں گی،ویسے بھی ہوش روبا منہگائی میں جہیز کے اس بد ترین دور میں جتنی جلدی ہو سکے میں جہیز کی لعنت جیسے مشارتی ناسور سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے،اس میں ہی ہماری اور ہمارے معاشرے کی بھلائی ہے،اللہ ہم سب کو جہیز جیسی بری لعنت سے بچاے امین !