ذرائع ابلاغ اور ہماری ذمہ داریاں

Posted on at


ذرائع ابلاغ کو غلط استعمال اور ان کے تباہ کن اثرات سے قوم کو بچانے کے سلسلے میں والدین اور اساتذہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اس میدان میں بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھی جانی چاہیے کہ اساتذہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو وعظ و تلقین ہی کر سکتے ہیں۔ بچے روازانہ چند گھنٹے مدارس میں گزارتے ہیں اس کے بعد وہ گھر پر ہوتے ہیں اور پھر وہ گھر میں کسی نہ کسی ذرائع ابلاغ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ وہ ٹی وی کے حملے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں والدین کی ذمہ داری دو چند ہو جاتی ہے۔ بچوں کو کھلانا پلانا ہی کافی نہیں، ان کی صحیح تربیت بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچے ہر قوم کی امانت ہونے کے ساتھ اپنے والدین کے وارث بھی ہیں۔ ان کے اخلاق و کردار میں آنے والا جھول یا ٹیڑھ پن جہاں پوری قوم کو متاثر کرتا ہے وہاں اس کے براہ راست اثرات والدین پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ذرائع ابلاغ خصوصاً ٹی وی کے اثرات سے اپنی اولادوں کو بچائیں لیکن کیسے؟ یہ کام یقیناً آسان نہیں ہے۔ تاہم عزم مستحکم ہو تو بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بچوں کو متبادل تفریح، کھیلوں، جسمانی و رزش وغیرہ کے ذریعے سے بھی ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مضر اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔


 


درسگاہوں کہ ذمہ داری بھی اس حوالے سے بہت زیادہ ہیں۔ درسگاہوں کا کام محض گریجویٹ پیدا کرنا نہیں بلکہ ان کے نظریاتی و فکری تربیت کا اہتمام کرنا بھی چاہیے۔ انہیں اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کی ذمہ داریاں بہت ہی ہمہ جہت ہیں انہیں طلبہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ جدید ترین ذعائع ابلاغ کے ذریعے سے پوری قوم کی تربیت کا اہتمام کر کے اس ذمہ داری سے عہدہ براں ہونا ہو گا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں شعبہ ہائے ابلاغ کو اپنے اپنے شہروں کی حد تک ہی سہی، پروگرام نشر کرنے چاہیں ضروری نہیں کہ یہ نشریات لمبے دورانیے کے ہوں، ایک دو گھنٹے کی معیاری نشریات بھی اس طوفان بلا میں عافیت کا سبب بن سکتی ہیں۔


 


مختلف دینی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات میں ذرائع ابلاغ کے بہر استعمال کو ضرور شامل کریں بلکہ ممکن ہو تو ایک ٹی وی یا ریڈیو سٹیشن قائم کر دیا جائے جو لوگوں کی تربیت کرسکے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ کا استعمال کا صحیح فہم ہو ورنہ اخراجات کے باوجود الٹے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دینی تنظیموں کے تحت چھپنے والے اخبارات، مجلؔات و جرائد کی حالت زار اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ یہ تنظیمیں ابھی تک ابلاغ کی اہمیت سے نا بلد ہیں اور ان کا صحیح استعمال نہیں کر رہیں۔


 


اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اپنی اہمیت اور ذمہ داریوں کا حقیقی ادراک کریں گے۔ اس طرح اساتذہ، والدین، دانش گاہیں اور دینی تنظیمیں اگر منصوبہ بندی سے صحیح سمت میں کام کریں تو ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ ذرائع ابلاغ فحاشی و عریانی کی یلغار سے ہمارے دین و ایمان کو تباہ کر نے کے درپے ہیں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اقوام عالم کو ان کے خالق کی بنائی ہوئی راہ پر لگانے کے لیے ان ذرائع کو بہتر انداز میں استعمال کریں اس میں ہمارا اور پوری انسانیت کا بھلا ہے۔        



About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160