ظہورقد سی سے پہلے عربوں کی حالت
اہل عرب صدیوں سے سخت جہالت، پستی اور کفر و شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اخلاق و تہذیب اور شا ئستگی سے نا واقف تھے۔ پاک اور نا پاک، جا ئز اور نا جا ئز شا ئستہ اور نا شا ئستہ کی تمیز سے وہ نا آشنا تھے۔ ان کی زندگی نہا یت گندی تھی۔ ان کے طریقے وحشیانہ تھے۔ زنا ، جوا ، شراب ، راہزنی اور قتل و خونریزی ان کی زندگی کے معمولات تھے۔ ہو اپنی لڑکیوں کو اپنے ہاتھوں زندہ دفن کر دیتے تھے۔ وہ کئی جہالتوں اور ذلا لتوں کے حصہ دار تھے۔ بت پرستی ، ارواح پرستی اور کواکب پرستی میں غرق تھے۔
حضور نور سرور کا ئنات رحمت اللعا لمین حضرت محمد ﷺ ۱۲ ربیع اللا ول ۵۷۱ء کو قریش کے ممتاز خاندان میں مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ ﷺ کی ولا دت سے دو ماہ پیشتر آپ کے والد ما جد کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس رات بت زمین بوس ہو گئے۔ منی کی وادی ، مروہ کے سنگریزے ، قبس کی چو ٹیاں اور عرفات کا میدان نور کی جھلکیوں سے چمک اٹھا۔
آپ کا قد درمیانہ تھا۔ سرخ و سفید رنگت تھی۔ داندان مبارک مو تیوں کی طرح جڑے ہوئے تھے، گردن اونچی، سر مبارک بڑا، سینہ چوڑا تھا، سر کے بال نہ زیادہ گھنگریالے اور نہ ہی زیادہ سیدھے تھے۔ آنکھیں سیاہ اور پلکیں بڑی بڑی تھیں ، چہرہ مبارک پر جب پسینہ آتا تو یوں محسوس ہوتا جیسے موتیوں کے قطرے ڈھلک رہے ہیں۔ پیشانی مبارک فراخ تھی ، ناک مبارک لمبائی کی طرف ما ئل تھی، سینہ مبارک چوڑا تھا۔ شانے بھرے بھرے تھے اور شانوں کی ہڈ یاں بڑی بڑی تھیں۔ شانوں اور کلا ئیوں پر بال تھے۔ کلائیاں لمبی تھیں۔ ہا تھوں کی ہتھیلیاں گوشت سے بھری بھری تھیں اور چوڑی تھیں۔ پا وؑں مبارک نا زک سے تھے۔
حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حضرت ثوبیہؓ کو نصیب ہوئی۔ اس کے بعد عرب کے د ستور کے مطابق آپ ﷺ کو حضرت حلیمہ سعد یہؓ کے حوالے کردیا گیا۔ حضرت حلیمہ سعد یہؓ نے آپ ﷺ کو چار سال تک دودھ پلایا۔ جب آپﷺ کی عمر ۶ سال کی ہوئی تو آپﷺ کی والدہ بی بی آمنہ اس جہاں فانی سے رحلت فرما گئیں۔ اب آ پﷺ کی پرورش آپﷺ کے دادا عبدالمطلب نے کی۔ ایک سال بعد مہربان دادا عبدالمطلب دنیا سے چل بسے۔ ان کی وفات کے بعد آپﷺ کے چاچا ابو طالب نے آپﷺ کو پالا۔ اپنےبچوں سے زیادہ شفقت اور راحت دی۔
حضرت محمد ﷺ کی سر شت سب سے جدا اور طبیعت سب سے منفرد تھی۔ آپﷺ اندھیرے میں ایک چراغ تھے۔ بچوں کے ساتھ کھیلنے سے آپﷺ کی طبیعت نفرت کرتی تھی۔ اگر کوئی فحش کلامی کرتا تو آپ ﷺ چلے جاتے تھے برے الفاظ سننا گوارہ نہ فرماتے۔ بہت متین اور پر وقار تھے۔
جوانی
جس زمانہ میں محمد مصطفیٰ ﷺ جوانی کی منزلوں سے گزر رہے تھے۔ تمام عرب کا ماحول انتہائی خراب ، گندہ ، پست اور سیرت واخلاق کے اعتبا ر سے خدا شناس نہ تھا۔ بت پرستی عا م تھی۔ شراب، جوا، لوٹ مار، چوری بد دیانتی، حیلہ گری، وعدہ خلافی اور دروغ گوئی اہل عرب کے محبوب مشاغل تھے۔ جھوتی قسمیں کھاتے، عہد و پیماں کرتے اور توڑ ڈالتے، قافلوں کو لوٹتے، یتیموں کا مال دبا لیتے، لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ ان کی شاعری فحاشی اور عریانی کا مجموعہ تھی۔ اتنے گناہ آلود ماحول، مذ موم گروہ پیش اور بری سو سا ئٹی میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی جوانی کا آغاز ہوا۔ آپﷺ نے انتہائی تقوی، طہارت پاگیزگی، خوش اخلاقی، دیانت اور صداقت سے عہد شباب گزارا۔
آپﷺ کی شخصیت انسانیت کی معراج سے بھی بہت بلند تھی۔ دنیا کے اندھیرے میں صرف یہ ایک چراغ تھا۔ عالم رنگ و بو میں بس وہی ایک ذات حق و صداقت کا مرکز اور ہدایت کا روشن مینار تھی۔
فہم و فراست
بعثت سے پہلے ہی لو گ آپﷺ کے تدبر اور فہم و فراست کے قائل ہو چکے تھے۔ ایک دفعہ شد ید بارش کی وجہ سے حجرا اسود اپنی جگہ سے زمین پر گر گیا۔ کعبہ کی تعمیر شروع ہو گئی، جب دیواریں اٹھ گئیں توحجراسود کو لگانے کا شرف ہر آدمی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ قریب تھا کہ کشت وخون ہوتا لیکن فیصلہ ہوا کہ جو شخص کل صبح کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہو وہ جو فیصلہ کرے گا سب لوگ اسے مان لیں گے۔ صبح سب لوگوں نے دیکھا کہ محمدﷺ بن عبداللہ سب سے پہلے کعبہ میں تشریف لائے۔ آپ نے ایک چادر منگوائی اور اپنے ہا تھوں سے پتھر اٹھا کر اس میں رکھ دیا۔ پھر سب قبا ئل کے سرداروں نے اس چادر کو اٹھا لیا۔ اس طرح سب نے مل جل کر کعبہ کی دیوارمیں حجرا اسود نصب کردیا۔
جب آپﷺ جوان ہوئے جو حضرت خد یجہؓ کا مال تجارت شام لے گئے۔ اس مال پر بہت زیادہ منافع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق، خوش معالگی، راست بازی اور دیانت داری سے بہت متاثر ہوئیں۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی خدمت میں شادی کا پیغام بھیجا۔ آپﷺ نے اپنے چا چا ابو طالب کے مشورے سے شادی کر لی۔ اس وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔
آپﷺ مکہ مکرمہ سے تھوڑی دور حرا کے مقام پر ایک غار میں چلے جاتے، وہاں غورو فکر فرماتے تھے۔ آپ ﷺکئی کئی دنوں تک ریاضت و عبادت میں مشغول رہتے۔ یہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام خدا کا پیغام لے آئے۔ وحی اولین میں خدا کے نام کے سا تھ انسان کے تخلیق کا ذکر تھا۔ آپ ﷺ نے گھر آتے ہی حضرت خدیجہؓ سے فرمایا۔ مجھے چادر اڑھاو۔ آپ ﷺنے پورا وقفہ سنایا۔ حضرت خدیجہؓ نے فرمایا۔ آپ ﷺ کی ذات بھلائیوں کا سرچشمہ ہے خدا آپ ﷺ کو ضا ئع نہیں کرسکتا۔ پھر آپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے کہا یہی وہ ناموس ہے جوانبیاء بنی اسرائیل پر نازل ہوا کرتا تھا۔
آپﷺ اپنی قوم میں تبلیخ اسلام اور احکام خدا وندی کی تلقین فرمانے لگے۔ ملک عرب کے لوگوں کے لئے یہ پیغام بلکل اجنبی اور نامانوس تھا۔ سب سے پہلے جن نیک بندوں کو ایمان کی توفیق اوراسلام کی سعادت تصیب ہوئی وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضرت علی ؓ حضرت خدیجہؓ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔
تبلیغ اسلام کی وجہ سے اہل مکہ آپﷺ کے جانی دشمن بن کئے۔ انہوں نے آپﷺ کو اور دوسرے مسلمانوں کو سخت تکلیفیں دینا شروع کیں۔ جاہلانہ عصیبت پوری قوت کے ساتھ عود کر آئی تھی مرد تو مرد عورتیں بھی خود حضور نبی کریمﷺ اور آپﷺ کے جانثاروں کو ستانے کے لئے کمر بستہ ہو گئیں۔
جب اہل مکہ کی زیادتیاں حد سے بڑھ گئیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپﷺ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں انصار مدنیہ نے بڑی محبت اور جوش و خروش سے آپﷺ کا استقبال کیا۔
مدینہ میں آپ آزادی سے تبلیغ فرمانے لگے۔ قریش سے کئی جنگیں ہوئیں، آخر کار آپ نے مکہ فتح کر لیا سارا عرب حلقہ بگوش اسلام ہوا۔
سن گیارہ ہجری ربیع الاول کا مہینہ تھا آپﷺ کی طبیعت بھاری بھاری سی تھی۔ چند دنوں کے بعد بخار نے شدت اختیار کرلی۔ مرض کی شدت سے بہت زیادہ تھی۔ حضورﷺ پیالہ میں ہاتھ ڈال کر بار بار پانی کا ہاتھ چہرہ مبارک پر پھیرتے تھے۔ حضرت سیدہ فا طمہؓ سے یہ بے چینی نہ دیکھی گئی۔ آپﷺ نے مسواک فرمائی اور زبان حق ترجمان گویا ہوئی۔ نماز، نماز اور لونڈی اور غلام کے حقوق ۔ اس کے بعد آخری الفاظ اللھم الرفیق الاعلی تھے۔ پس پھر کوئی آواز نہ آئی۔ چاشت کا وقت تھا، پیر کا دن تھا، ہجرت نبوی کا گیارہواں سال، عمر مبارک تریسٹھ (۶۳) سال اور چار دن۔ جس نے بھیجا اس نے بلا لیا۔ روح مبارک عالم قد س میں رفیق اعلیٰ سے جاملی۔ ازواج مطہرات، اہل بیت اور صحابہ کرام پر غم والم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ کے نازک اور معصوم دل سے یہ صدا نکلی۔ مجھ پر ایسی مصیبتیں آپڑی ہیں کہ اگر دن پر پڑتیں تو رات بن جاتا۔
اسوہ کامل
حضور اکرمﷺ تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ اُپ ﷺ کی ذات تمام اعلیٰ اوصاف کا مجمو عہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ۔ رسول اللہ ﷺکی زندگی تمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺکی پیروی خدا کی محبت کا ذریعہ ہے اُپﷺ کی ہستی ایک ایسا سورج تھا جو تمام جہان کو روشن و منور کرتاہے۔ جس کی روشنی سے کائنات کے ہر ذرے نے نور و ہدایت حاصل کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ۔ اے نبیﷺ ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔