باز آجا اب بھی ہے وقتِ ندامت باز آ
ہیں کھلے توبہ کے دروازے غنیمت باز آ
ناس کر دیگی تیرا شیطاں کی صحبت باز آ
کچھ رکھا کر اوليا سے بھی عقیدت باز آ
ہاتھ سے جائے تو پھر یہ لوٹ کر آتا نہیں
وقت سے اچھی نہیں ہے یوں شرارت باز آ
جس میں رہتے تھے کبھی شاہا نِ دنیا شان سے
آج ملبہ بن گئی ہے وہ عمارت باز آ
قبر کی مٹی نے شاہوں کو بھی مٹی کر دیا
کام کچھ اُن کو نہ آئی ان کی دولت باز آ
تیری دولت تیرے وارث نوچ کر کھا جائیں گے
چھوڑدے۔! اللہ سے مت کر بغاوت باز آ
ہے اگر لیڈر تو کر انصاف ورنہ یاد رکھ
موت کے آگے نہیں چلتی سیاست باز آ
عمر بڑھتی ہے کہ پھر گھٹتی ہے ہر پل، سوچ لے
زندگی کی جان لے سؔيد حقیقت باز آ