اشرف سے بیس سالہ دوستی کا اختتام میرے ایک جملے کا نتیجہ تھا دوست کہتے ہیں میں نے زیادتی کی مجھے معافی مانگنی چاہئے کیا واقعی یہ میری غلطی ہے اور مجھے معافی مانگنی چاہئے ؟
فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں
جہیز کی مطلوبہ ڈیمانڈ پوری نہ کرنے پر جس میں اشرف کی پسندیدہ بائیک بھی شامل تھی اشرف کے گھر والوں نے رخصتی سے انکار کردیا ان کے انکار میں اشرف کی خاموش تائید بھی شامل تھی
واقعہ سے آگاہ ہونے کے بعد جب میں نے اس سے بات کی تو وہ ڈھٹائی سے اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کیلیے اوٹ پٹانگ دلیلیں دینے لگا جو اس موقع اکثر لڑکے والے دیتے رہتے ہیں
قصہ مختصر ،جب وہ اپنی بے شرمانہ دلیلوں سے حیا کی عزت کی دھجیاں اڑانے لگا تو میں اسے بھکاریوں میں سب سے بڑا اور بدترین بھکاری قرار دے کر اٹھہ گیا اور اسی کے ساتھ ہی ہماری بچپن کی دوستی کا بھی اختتام ہوگیا
لوگ کہتے ہیں تعلیم سے شعور بیدار ہوتا ہے لیکن جب میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انسانیت سے یوں کھلواڑ کرتے ہوۓ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں تعلیم سے اور شعور پیدا ہو یا نہ ہو لیکن تعلیم انسان نما درندوں کو ضرور تہذیب اخلاق اور عزت سے عزت کی بے عزتی کرنا سکھادیتی ہے
بے شک ضرور کچھ خرابی ہمارے تعلیمی نظام کی بھی ہے لیکن صرف یہی وجہ نہیں جو تعلیم لوگوں کی درینہ جہالت کا کچھ نہیں بگاڑ پارہی بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا نہ ہونا ان تمام معاشرتی خرابیوں اور بگاڑ کی اہم وجہ ہے
وہ مرد بازار حسن میں خود کو نیلام کرنے والی عورت سے زیادہ قابل نفرت و افسوس ہیں جو خود کو شادی جیسے جائز محترم اور پاکیزہ رشتے کی آڑ میں فروخت کرتے ہیں
تف ہے ایسے مردوں کی مردانگی پر جو زندگی کی آسائشات کے بدلے غیرت کا سودا کرتے ہیں جنھیں اپنا میعار زندگی بلند کرنے کیلیے اپنے زور بازو پر یقین نہیں ہوتا وہ مرد اپنی مردانگی اور غیرت کا قابل فروخت اشتہار بن کر یونہی عورتوں میں نیلام ہوتے ہیں
بےغیرت صرف اپنی بہن بیٹیوں کا سودا کرنے والے ہی نہیں ہوتے وہ مرد بھی ہوتے ہیں جو خود کیلیے خودی کو بیچ دیتے ہیں ایسے مردوں کو میں زیادہ سے زیادہ نرم الفاظ میں بھی کم از کم بدترین بھکاری کہونگا اور معذرت چاہونگا اس بات کیلیے کہ اس سے زیادہ نرم الفاظ میرے پاس انہیں کہنے کو نہیں
آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں ؟؟؟؟؟؟