بجا کہ آنکھوں میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکستِ خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہو گی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تیری یاد کے ڈھلے بھی نہیں
ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک میرے زخم کے سِلے بھی نہیں
خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کہ
وہ برہمی ہے کہ ہم سے اُنہیں گِلے بھی نہیں
Baja ke aankhon mein neendo ke silsile
Posted on at