ڈاکٹر سی میکل امریکہ میں اور بین الاقوامی طورپر ایک شائستہ تعلیمی رہنما ہے۔ اگست 2009 میں سی میکل افغانستان کے امریکن یونیورسٹی کے صدر منتخب ہوۓ۔ اُن کے رہنمائی میں ملک میں پہلی بِنا منافع کے یونیورسٹی AUAF نے پریمئیر ہائر ایجوکیشن انسٹیٹیوشن کیطور پر پہچان بڑھانا شروع کیا۔
ڈاکٹر سمیتھ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں مینیجمنٹ انسٹیٹیوٹ سے گریجویشن کی اور ڈاکٹری کے ڈگری گرینسبورو میں نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے حاصل کئیں۔ اُنہوں نے وینتروپ یونیورسٹی، کیلی فورنیا یونیورسٹی، لاس اینگلز اور یلون یونیورسٹی کے پڑھائی کے شعبوں میں اور ایک تعداد میں کمیٹیوں اور ارکان کمیٹیوں کیطور پر نوکری کی ہے۔
نیچھے افغانستان میں تعلیم کے متعلق ڈاکٹر سمیتھ کیساتھ ایک گفتگو ہے۔
فلم انیکس:- کیا آپ اپنے پس منظر اور اپنے بارے میں کہے سکتے ہے؟
میکل سمیتھ:- میں اپنے تمام زندگی میں تعلیم کیلۓ عمارتی سہارے کیطورپر تعلیم میں شامل ہوچکا ہوں۔ اس تجربے میں ڈاکٹری ڈگری کرنے کے بعد کۓ یونیورسٹیوں میں پڑھائی کی، تعلیمی پاؤنڈیشن کے رہنما کیطور پر اُوربن کے دو ریاستوں کے سکولوں میں نوکری کی، دوسرے ممالک میں تمام ریاست کے اعلیٰ تعلیمی منصوبوں کے شخصیت کیطورپر رہنمائی کی، مشرقی وسطی میں ایک اعلیٰ تعلیم کے ترقی کا عمل بنایا، افریقہ میں نۓ یونیورسٹی کے قیام میں مدد کیا اور اخرکار یہاں کابل، افغانستان کے امریکن یونیورسٹی کے قیام کیلۓ کام کررہا ہوں۔
فلم انیکس:- افغانستان کے متعلق وہ کیا تھا جس نے یہاں اپکو امریکی یونیورسٹی کے صدر بنانا چاہا؟
میکل سمیتھ:- جب میں نے 2009 کے گرمیوں میں اِس یونیورسٹی کا دورہ کیا تو مجھ سے سوال کیا گیا کے کسطرح افغانستان کے امریکی یونیورسٹی کے طلباء سے شعوری اور ترقی کی اُمید کی جاسکتی ہے؟ اُنہوں نے مجھ سے اچھے سوالات پوچھیں۔ مشکل اوقات کے بعد لڑائی جگڑوں اور طالبان حکومت کے دوران انہوں نے تمام تجربے حاصل کی ہیں۔ وہ اپنے ملک کے تعمیر کیلۓ اچھے تعلیم اور مواقع تلاش کرنے کیلۓ بے چین تھے۔ خود یونیورسٹی کابل کے ریگستان میں ایک سرسبز مقام تھا۔ میں مقام حاصل کرنے کے مزاحمت نا کرسکوں گا۔ میں نے اور میرے بیوی نے افغانستان میں رہ کر طلباء اور دوسرے کمیونیٹیوں کیساتھ کام کرکہ میں نے یہ ایک حیران کن تجربے حاصل کی ہیں۔ یہ اسان نہیں ہوا تھا لیکن یہ بہت انعامی ہوگیا تھا۔
فلم انیکس:- آپ افغانستان کے حالیہ تعلیم کے بارے میں کیا سوچھتے ہے؟ اپکے خیال میں وہ کونسی طریقے ہیں جن کے ذریعے اِسے طرقی دی جاسکتی ہے؟
میکل سمیتھ:- تعلیمی نظام زیادہ نہیں صرف 12 سال سے دوبارہ تعمیر ہوکہ ارہا ہے۔ طالبان کے دور میں پبلک سکولوں میں کوئی لڑکیاں نہیں تھیں متفقہ طور پر لڑکے بھی اور اعلیٰ تعلیمی نظام گرنے میں تھا۔ اہستہ اہستہ یہ واپس ارہا ہے۔ اب یہاں پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں بہت سے طلباء اور طالبات ہیں۔ کچھ 120000 طلباء صرف اِس سال افغانستان کے سیکنڈری سکولوں سے گریجویٹ ہو نگے اور ان کے لیۓ ملک کے پبلک اور پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں جگہیں دیکھیں جائینگے۔ پبلک سکولوں میں بہت اور اچھے اساتذہ ہیں۔ اِن کیلۓ یونیورسٹیاں اور شعبے دوبارہ تعمیر ہورہے ہیں اور ہدایت کے کوالٹی کو ترقی دی جار رہی ہے۔ لیکن اب بھی ملک کے نوجوانوں کے خواہش کیمطابق اعلیٰ کولٹی کے تعلیم کو حاصل کرنے کیلۓ بڑے سہارے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے ہر سطح پر بہت سے ہدایات کیساتھ اعلیٰ تعلیم کے سطح اور تربیت کی ضرورت ہے۔
فلم انیکس:- افغانستان اور خاص کر اعلیٰ تعلیمی سیکٹر کیلۓ کام کرنے کے دوران اپ کا کن اعلیٰ مشکلات سے سامنا ہوا ہیں؟
میکل سمیتھ:- اعلیٰ تعلیمی حصہ میں وہ فیکلٹی موجود نہیں ہے جنہوں نے ڈاکٹری اور ماسٹر ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ اِس خسارے کیساتھ اعلیٰ تعلیمی نظام پر اثر ہوا ہے۔ یہ بھی ہے کہ بڑے کلاسوں میں اب بھی وہی مضمونیں اُن ہدایات کیساتھ پڑاۓ جاتے ہیں جوکہ طلباء اُسے یاد کرے وغیرہ وغیرہ جن کولیکچر سے نکالے گۓ ہیں۔ تنقیدی سوچ، مسئلوں کے حل، گروہ میں سیکھنا اور نۓ حالات پر علم کو لاگو کرنے کیطرف کافی توجہ نہیں ہے۔ بہرحال یہ تو تبدیلی کے شروعات ہیں۔ چند سالوں پہلے سے اب بہت زیادہ اچھے اور مستحق فیکلٹی پڑھا رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے وزارت ایک بھروسے کا نظام قائم کررہے ہیں جوکہ صرف ایک بار شروح ہوجاۓ تو پھر بہت مدد دے گا۔
فلم انیکس:- یونیورسٹی میں طالبات کے فیصد شرح کیا ہے؟ وہ کسطرح یونیورسٹی کے سرگرمیوں میں شامل ہیں؟
میکل سمیتھ:- پچھلے چار سالوں سے اے یو اے ایف نے طالبات کی شرح 16 فیصد سے تمام 30 فیصد سے زیادہ بڑھایا ہے۔ خاص کر انے والے نۓ طلباء میں طالبات کی فیصد شرح کو بڑھانے کا وعدہ کیا جارہاہے۔ اِس سال انے والے طلباء میں 50 فیصد سے زیادہ طالبات تھیں۔ وہ بڑی منسوبی ہے کہ سکالرشپ کے ذخیرات میں اضافہ موجود ہے۔ کابل میں امریکہ کے ایمبیسی کیطرف سے ادا کے جانے والے رقم کا بہت شکریہ اور اُن عطیوں کا بھی جسکو یونیورسٹی نے سکالرشپوں کیلۓ حاصل کیا ہیں۔ مقاصد صرف طالبات کے تعلیمی شرح 50 فیصد تک رسائی ہے۔ کیمپس میں طالبات طالب العلمی کے زندگی میں سرگرمی کیطور پر حکومت میں، سپورٹس میں( مثال کیطور ہمارے پاس عورتوں کے باسکٹ بال، والی بال اور سوسیر ٹیمیں موجود ہیں) اور بہت سے اور کلبیں ہیں جو طلباء کو اُن کے دلچسپیوں کے ذریعے ملاتے ہیں۔ بہت سے کلبیں پیسے کمانے والے ہیں جن سے مستحق وجوہات کے بنا دولت بڑھا دی جاتی ہے۔
فلم انیکس:- تعلیم کسطرح افغانی بالغ لڑکیوں کی اُن کے کمیونیٹی میں عورتوں کے اختیار کے سہارے کا مدد کرتاہے؟
میکل سمیتھ:- افغانستان کے امریکہ یونیورسٹی کیطرح عورتوں اور لڑکیوں کے تعلیمی یونیورسٹی دیکھ یہ بہت حوصلہ افزاء ہے۔ وہ اِس کے قابل ہیں کہ اپنے لڑکوں کیلۓ بھی ایسا کریں۔ وہ اکثر اچھے طلباء کے درمیان ہیں اور اُنہوں نے رہنما مقاموں پر پہنچ گئ ہیں۔ لڑکیوں نے لڑکوں پر اثر کیا اور انفرادی اور رہنماؤں کے طور پر اُن کے احترام کرتی ہیں جوکہ دونوں برابر ہیں۔ یہ تمام طلباء اور طالبات کریجویٹ کرکہ اپنے کاموں میں داخل ہوتے ہیں اور اخرکار اُن کے اپنے خاندانیں ہوتے ہیں اور وہ اُن کیساتھ یونیورسٹی کے تجربے کو لے جاتے ہیں۔ وہ بدلتے ہیں اور بڑھ کر سمجھ دار ہوتے ہیں اور وہ کاروبار، حکومت اور عام معاشرے میں مستقبل کے رہنما بنیں گے۔ اِس کا اثر یہ ہے کہ وہ تیز ہوسکتے ہیں۔ اُن عورتوں کیلۓ جو زیادہ سکول کے عمر کے نہیں ہیں اُن کیلۓ مرکز کیطور پر نۓ یونیورسٹی قائم کی گئی ہے جوکہ افغانی خواتین کے اقتصادی ترقی کیلۓ بین الاقوامی مرکز ہے تاکہ عورتوں کیساتھ تربیت اور نوکریوں کیلۓ دوسرے تیاریوں میں مدد کریں اور اُن کے اپنے کاروبار قائم کرنے اور بڑھانے میں بھی مدد کریں۔
فریشتہ فوروغ