25 دسمبر کو نصاری کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش ھے جسپر پورے مغرب اور جھاں عیسائی بستے ھین عید کے طور پر منایا جاتا ھے وہ ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ھیں
ایسے میں کچھ مغرب کی طاقت سے مرعوب تہذیب مغرب کے ننگے پن پر فدا متجددین کی باسی کڑی میں بھی ابال آتا ھے اور وہ نصاری کے شانہ بشانہ اس مغربی تہوار جسکی بنیاد ھی شرک پر ھے کو سیلیبریٹ کرنے کی تگ ودو میں لگ جاتے ھیں
اس ضمن میں دشمنان اسلام نصاری کی دیھلیز پر سجدہ ریز مغلوب اعظم جناب قاری حنیف ڈار صاحب کا ایک 400 کلو میٹر لمبا ” درد سر ” مضمون مھان لکھاری جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب کے ” انکشاف ” پر نظر سے گزرا
ابتدا تو حسب عادت قصہ گوئی کی گئی یہ انکا کافی پرانا مضمون ھے جو ھر سال حاملہ ھوتی ھے اور مزید تلبیساتی بچے پیدا کرکے تشکیکی سلسلہ دراز ھوجاتا ھے اور اب وہ اکتا دینے والا ایک ناول بن چکا ھے
شروع میں تو وہ تاثر دیتے ھیں کہ مغرب کے پاس طاقت ھے قوت ھے مال ھے ٹیکنالوجی ھے عیش ھے وہ غالب ھیں مسلمان مغلوب ھیں کمزور ھیں مفلوک ھیں لھاذ مغرب کے آگئے لیٹ جاو وہ آقاء ھیں مسلمان غلام ھیں انکے مطابق چلو اپنی مھار انکے ھاتوں میں دے دو پھر انکی مرضی آپکو جدھر مرضی لے چلیں
غیرت حمیت پرانے زمانے کی باتیں تھیں اس میں سرا سر نقصان ھے بے غیرتی بے حمیتی دلالی میں عزت ھے اس لئے انکے ساتھ انکا تہوار کرسمرس مناو اور موج اڑاو اللہ ناراض ھو یا رسول خفاء ھوں ھوتے رھیں لیکن ملکہ وکٹوریہ اور الزبتھ ناراض نہ ھوں اس لئے سارے مسلمان 25 دسمبر کی رات کو موم بتی لیکر ھیپی کرسمرس منائیں
انھوں نے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے سب سے پھلے قرآنی آیات پر تیشئہ تعطیل چلایا انکی زبانی ھی سنیں
“سورہ الممتحنہ کی جس آیت کو اس مقصد کے لئے چنا جاتا ھے وہ خاص ھے مکے والوں کے ساتھ،،”
اب آپ اس آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں
اے ايمان والو! ميرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں كو اپنا دوست مت بناؤ تم تو ان كى طرف دوستى كے پيغام بھيجتے ہو، اور وہ اس حق كے ساتھ جو تمہارے پاس آچكا ہے كفر كرتے ہيں الممتحنۃ
اب قاری صاحب نے اس آیت کو بغیر کسی دلیل شرعی کے خاص کردیا مکے والوں کے ساتھ اور دیگر امت کے حق میں اس آیت مبارکہ کو معطل کردیا لیکن اسی سورۃ کی ایک اور آیت کو عام رکھ کر استدلال کیا انکی زبانی سنیں
سی سورہ کی آیت نمبر 8 میں واضح کر دیا،لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین و لم یخرجوکم من دیارکم،ان تبروھم و تقسطوا الیھم، ان اللہ یحب المقسطین !( الممتحنہ8) نہیں روکتا اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے اور انصاف کرنے سے جنہوں نے نہیں قتال کیا تم سے دین میں اور نہیں نکالا تمہیں گھروں سے ، اللہ تو انصاف( مقسطین ) کرنے والوں کو پسند کرتا ھے ( پھر کیسے روک سکتا ھے ) یہاں اقساط کا حکم سب سے اھم ھے،،میل جول میں اقساط کا مطلب ھے،وہ تمہارے یہاں آئیں تو تم ان کے گھر وزٹ کرو،،وہ تمہارے یہاں پیدائش کی مبارک اور تحفہ دیں تو تم ان کے یہاں مبارک اور تحفہ دو ،وہ سلام کریں تو ان کے الفاظ سے بڑھ کر اچھے الفاظ کا انتخاب کرو ورنہ ویسے الفاظ ھی لوٹا دو،وہ تمہارے گھر سالن دیں تو تم ان کے گھر پکا ھوا بھیجو !
مذکورہ آیت کا جو مفھوم قاری صاحب نے بیان کیا ھے اس کو تو رھنے دیں
میرا سوال یہ ھے کہ جو آیت یھود ونصاری کی دوستی سے ممانعت کی تھی اسکو تو معطل کر دیا اور جس سے انکے خیال میں انکے زعم فاسد کی تائید نکل سکتی تھی انکی نظر میں وہ قیامت تک کے لئے نافذ العمل ھے یہ اختیار قاری صاحب کو کس نے دیا ھے وہ جس مرضی ایت کو مععطل کردیں اور جس کو مرضی نافذ
کیا یہ تؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض الکتاب کے زمرے میں نہیں آتا ؟
لیکن قاری صاحب کس کس آیات کو معطل کرینگے چند ایک کا ترجمہ ملاحظہ ھو
اگر وہ اللہ تعالى اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور جو اس پرنازل كيا گيا ہے اس پر ايمان ركھتے ہوتے تو يہ كفار سے دوستياں نہ كرتے، ليكن ان ميں سے اكثر لوگ فاسق ہں} المائدۃ
اے ایمان والو یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور (یاد رکھو) تم سے جس نے انہیں دوست بنایا تو یقینا وہ انہیں میں سے ہے(مائدہ )
اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ، جو تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں، خواہ وہ ان میں سے ہوں جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے یا کفار ہوں اگر تم مومن ہو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو(مائدہ )
‘ مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔ (ال عمران )
اوراور تجھ سے (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ) یہودی اور عیسائی، ہرگز راضی نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ تو ان کے مذہب کی پیروی کرلے۔بقرہ
اسکے علاوہ بھی بھت ساری آیات دال ھیں کہ انکے ساتھ دوستی نہیں ھوسکتی کیا یہ تمام آیات مکہ کے ساتھ خاص ھیں ؟
ایک بات اور بھی قاری صاحب نے کی وہ یہ کہ قرآن کو معطل کرنے پر استدلال پکڑا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل سے کہ انھون نے قحط سالی میں حد ساقط کر دی تھی یہ بات تھمت ھے حضرت عمر پر ایت حد سرقہ مطلق تھی اسکی تخصیص اللہ کے نبی نے کی تھی حضرت عمر نے ساقط نہیں کی تھی بلکہ خود حضور ﷺ شارع نے ساقط کی تھیں
”لاقطع فی زمن المجاع“۔(کنز العمال ج:۳‘ص:۷۹)
قحط کے زمانے میں سزاء نہیں ھے
مؤلفہ القلوب کی آیت سے بھی استدلال بن نہ پایا تو آیت تحیۃ لے آئے اسپر بھائی اکرام اعظم Ikram Azamکا تبصرہ سنیں (بھت کمال کی بات کی ھے اللہ انکو جزائے خیر دے )
تالیف قلوب کے لیے کچھ مالی مدد کرنا مسلمانوں کے اپر ہینڈ ہونے کی علامت ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ کا فر مان مبارک بھی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کو خیرات اور مالی مدد دینی چاہیے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک ، تحائف اور خوش اسلوبی کے برتاؤ کی بھی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے۔
لیکن اس سے چونکہ میری کرسمس کی دلیل نہ بن پائی تو صاحب مضمون نے تحیۃ کو دلیل بنانے کی کوشش کی ۔
وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها (النساء -86)
اس آیۃ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مشروط گریٹنگز کا حکم دیا ہے ۔ واذا (اگر) وہ تمہیں آداب کہیں تو انھیں ان سے بہتر آداب لوٹاؤ یا کم از کم اسی نوعیت کے آداب۔ ۔۔۔
تو محترم ان تحیات میں خوشی کی مبارک باد بھی شامل کر لیتے ہیں۔ تو مجھے ایک بات بتائیے کہ اگر سید محمد سمیع کی شادی ہو تو ہم اسے شادی مبارک کہیں گے یا وہ ہمیں شادی مبارک کہے گا؟ ( اس نے تو شاید شادی کے فریق ثانی کو بھی مبارک نہ دی ہو smile emoticon )
تو جب عیسائیوں کی کرسمس ہے تو وہ ہمیں میری کرسمس کیسے کہہ سکتے ہیں ، کیونکہ یہ تہوار ان کیلیے خوشی کا موقع ہے ہمارے لیے نہیں ۔ لہذا جب وہ ہمیں ہیپی کرسمس نہیں کہیں گے تو ہم پر ان کو مبارک باد دینا سورۃ النساء کی آیت نمبر 86 کی رو سے کیسے نافذ ہو سکتا ہے کہ جس میں تحیات کے لوٹائے جانے کا مشروط حکم ہے نہ کہ تحیات میں پہل کرنے کا۔
ہاں اس سورۃ کی رو سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ آپ کو عید مبارک کہیں تو آپ ان کی مبارک قبول کریں اور انھیں خیر مبارک کہیں انھیں سیویاں پیش کریں اور ساتھ میں چائے بھی پیش کریں۔
تالیف قلوب کا مقصد متعین ہے ۔ کہ اس سے انھیں اسلام کی طرف راغب کیا جائے ۔ لہذا ان کے معاشرتی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک ، اور لین دین میں تواضع کی بات تو درست ہے لیکن کیا ان کے گرجے میں جا کر سروس میں شامل ہونا کسی لحاظ سے تالیف قلوب کا حصہ ہوسکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو ہندوؤں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ان کی تالیف قلوب کیلیے ماس کھانا چھوڑ دیجیے ، ان کے گنیش کو کبھی کبھار ماتھا ٹیک دیا کیجیے اور ان کی درگا ماتا کی پوجا کا پرشاد بھی چکھ لیا کیجیے۔ کیونکہ اسی شہر میں جہاں کے ماحول میں آپ عیسائیوں کے ساتھ دن کے چودہ گھنٹے بتانے کی بات کر رہے ہیں وہیں ہندوؤں کی تعداد عیسائیوں سے چار گنا زیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عیسائیوں کی طرح دہریے بھی نہیں ہوئے اور ابھی تک اپنے دھرم سے چمٹے ہوئے ہیں۔
بعل ۔۔۔۔ بت کا ذاتی نہیں بلکہ صفاتی نام تھا
جیسا کہ میں نے آپ کی پوسٹ سے جانا کہ بعل شوہر کو کہا جا تا ہے ( اس کے اولاد دینے کی خوبی کے سبب) تو یہی خوبی لوگوں نے اس بت سے ایسوسی ایٹ کر لی تھی اسی لیے اسے بعل کہا جاتا تھا۔ چونکہ بعل لفظ خاوند کا عمومی مترادف ہے اس لیے حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلیے بھی ھذا بعلی شیخا کا لفظ استعمال کیا۔
آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ شوہر کے لیے لفظ بعل کا استعمال بعل نامی بت کے شوہرانہ مقام سے نسبت کی وجہ سے ہوا….؟؟؟
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قید کے ساتھی سے کہا تھا کہ اپنے رب سے میرا تذکرہ کرنا۔ تو اس وقت ان کی مراد فرعون کو رب العلمین کا شریک ٹھہرانا نہیں تھا۔ بلکہ رب عرف عام میں دیالو مالک کے معنی میں استعمال کیا۔
کما ربیانی صغیرا ۔۔۔۔۔ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔
اس مثال سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ میری کرسمس کا اپنے ذہن میں کوئی اور “اسلامی” خاکہ بنا کر مبارک باد دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ اللہ نے بیٹا جنا۔
آخری عرض۔ عیسائیوں کو ان کی شادی کی مبارک دیجیے، بیٹے کی پیدائش پر مبارک دیجیے، نوکری، گاڑی اور گھر ملنے پر سیلیبریٹ کیجیے ۔ لیکن جہاں بات دین اور ایمان کی ہو وہاں رک کر ایک لمحے کیلیے سوچیے۔ کہ کیا یہ عمل اللہ کی اس دعوت کے زمرے میں آتا ہے جو قرآن کے سنہرے اوراق پر جگمگا رہی ہے “تعالوا الیٰ کلمۃ سواءِِ بیننا و بینکم”
میرا خیال ہے میری کرسمس ہمارے اور ان کے دین کا مشترکہ حصہ نہیں ہے۔
کیونکہ کرسمس کے بعد ماؤنڈی تھرس ڈے ، گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بھی آتے ہیں جہاں ہمارا مذہب پھر ان سے اختلاف رکھتا ہے۔ کیونکہ ہمارے حضرت عیسی علیہ السلام فوت نہیں ہوئے
(اکرام اعظم بھائی کے شکرئے کے ساتھ انکی تحریر پوری نقل کردی جو اوپر انکے مینشن کردہ نام سے شروع ھوتی ھ
christmas and muslims
Posted on at