Posted
سیرت نبوی کے آئینے میں۔۔۔۔۔ تعلیم و تربیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو اہم خصوصیات
آنحضرت ﷺ کے انداز تعلیم و تربیت کی تمام خصوصیات کا احاطہ کسی بھی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن یہاںآپ ﷺ کے انداز تربیت کی صرف دو خصوصیات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو اپنی محدود بصیرت اور مطالعہ کی حد تک مجھے سب سے زیادہ بنیادی معلوم ہوتی ہیں۔
ان میں سب سے پہلی خصوصیات آپ ﷺ کی شفقت ، دل سوزی و خیر خواہی اور رحم دلی و نرم خوئی ہے ، چنانچہقرآن کریم نے آپ ﷺ کی اس خصوصیات کا ذکر فرما کر اسے آپ ﷺ کی کامیابی کا بہت بڑا سبب قرار دیا ہے۔ ،،بس یہ اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر آپ ﷺ لوگوں کے لیےنرم خو ہو گئے اور اگر آپ ﷺ درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ ﷺ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔،،
آپ ﷺ اس قسم کے معلم نہ تھے کہ محض کوئی کتاب پڑھا کر یا درس دے کر فارغ ہو بیٹھے ہوں اور سمجھتے ہوں کہ میں نے اپنا فریضہ ادا کردیا، اس کے بجائے آپ ﷺ اپنے زیر تربیت افراد کی زندگی کے ایک ایک شعبے میں دخیل تھے، آپ ﷺ ہر دکھ درد میں شریک اور ہر لمحے ان کی فلاح و بہبود کے لیے فکر مند رہتے تھے، آپ ﷺ کے اسی وصف کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ،، بلاشبہ تمہارے پاس تمھیں میں سے ایک ایسا رسول ﷺ آیا ہے جس پر تمھاری مشقت گراں گذرتی ہے اور جو تمھاری بھلائی کے لیے بے حد حریص ہے اور مسلمانوں پر بے حد شفیق اور مہربان ہے،،۔
آنحضرت ﷺ کے انداز تعلیم کی دوسری اہم خصوصیت جسے میں اہمیت کے ساتھ اس وقت ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہآپ ﷺ نے اپنے پیروؤں کو جس بات کی تعلیم دی اس کا بذات خود عملی نمونہ بن کر دکھایا۔ آپ ﷺ کے وعظ و نصائح اورآپ ﷺ کی تعلیم و تربیت صرف دوسروں کے لیے نہ تھی، بلکہ سب سے پہلے اپنی ذات کے لیے تھی، اللہ تعالیٰ نے بہت سے معاملات میں آپ ﷺ کو رخصت و سہو لت عطا فرمائی، لیکن آپ ﷺ نے اس رخصت و سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو دوسرے تمام مسلمانوں کی صف میں رکھنا پسند فرمایا۔
آپﷺ نے لوگوں کو نماز کی تلقین فرمائی تو خود اپنا عالم یہ تھا کہ دوسرے اگر پانچ وقت نماز پڑھتے تو آپ ﷺ آٹھ وقت نماز ادا فرماتے تھے،جس میں چاشت، اشراق اور تہجد کی نمازیں شامل ہیں، تہجد عام مسلمانوں کے لیے واجب نہ تھی، لیکن آپ ﷺ پرواجب تھی اور تہجد بی ایسی کہ کھٹرے کھڑے پاؤں پر ورم آجاتا تھا، حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اگلی پچھلی لغزشیں معاف نہیں فرما دیں، پھرآپ ﷺ کو اتنی محنت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر رحم و کرم فرمایا ہے: لیکن کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو؟ آپ ﷺ نے دوسروں کو سال میں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تو خود اُپ کا عمل یہ تھا کہ آپ ﷺ کا کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہ رہتا تھا۔ عام مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ صبع کو روزہ رکھ کر شام کو افطار کر لیا کریں، لیکن آپ ﷺ کئی کئی روز مسلسل اس طرح روزے رکھتے تھے کہ رات کے وقت بھی غذا آپ کے منہ میں نہیں جاتی تھی۔