مرزا اسد الله غالب ٢٧ ستمبر ١٧٩٧ء کو آگرہ میں پیدا ہوۓ .ان کے آباواجداد ابیک قوم کے ترک تھے اور سممرقند کے رہنے والے تہے .ان کے دادا وطن چھوڑ کر آئے اور شاہ عالم کی فوج م ملازم ہو گئے .ان کے والد مرزا عبدللہ بیگ پہلے لکھنوو م نواب آصف ادولہ کے ہاں ملازم ہوۓ ،پھر حیدرآباد دکن میں ملازم رہے.پھر وہ الور چلے گئے اور وہاں ایک لڑائی میں مارے گئے .ان کی پرورش ان کے چچا نے اپنا ذمہ لے لی مگر چند ہی سال بعد وہ بھی انتقال کر گئے.ان کے وارث کی حیثیت میں غالب کو ساڑھے سات سو روپیے سالانہ پنشن ملنے لگی جو جنگ آزادی تک ان کو ملتی رہی .پنشن بند ہونے کے بعد انہو نہ برڑی تنگدستی کی زندگی گزاری .نواب رام پور نے انھے سو روپے ماہوار وظیفہ دے دیا جس سے ان کی حالت کچھ سمبھلی.پھر جنگ آزادی کے تین سال بعد ان کی پنشن بھی بھال ہو گئی مگر آپ زندگی بھر مقروض ہی رہے اور خوشالی کی زندگی نہ بسر کر سکے.
غالب بوہوت دوست طبیت کے انسان تہے اور بارے ملنسار آدمی تھے .وہ ہمیشہ اپنے دوستوں اور چاہنے والو کے خطوں کے جواب میں کبی دیر نہیں کرتے تہے اور ہمیشہ باقائدگی سے ان کے جواب دیتے تھے.ان کے چاہنے والو اور دوستوں م ہر مذہب اور ہر مکتب کے لوگ شامل تھے .وہ ان کی مدد بھی کرتے رهتے تہے .وہ بارے صاف گوہ ،خدار اور حق پسند کسم کے انسان تہے .تاہم شطرنج اور شراب نوشی ان کی کمزوری تھی .جس کی وجہ سے انہیں قید بھی کاٹنی پڑی ،جس کا انہیں بوہوت افسوس تھا .ان کی زندگی کا زیادہ حصّہ مصیبتوں اور پریشانیوں میں ہی گزرا .آخری عمر م بیماری ان پا بھاری پر گئی اور وہ ١٥ فروری ١٨٦٠ء کو دہلی میں انتقال کر گئے .
غالب کی شاعری اس زمانے میں بھی مقبول رہی اور آج بھی مقبول ہے .اردو زبان کا کوئی قاری ایسا نہیں ہو گا جس نہ غالب کو پڑھا نا ہو اور ان کا کوئی نہ کوئی شعر زبانی یاد نہ ہو .بوہت سارے مشہور نقادوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا .اور واقعے غالب کی شاعری میں ایک اور ہی سسماں ہے جس میں شاعرانہ بھی ہے اور اثر کرنے والی خصوصیت بھی ہے .