بیس بائیس سال کا ایک نوجوان ، اسے میں جب بھی مسجد میں دعا مانگتے دیکھتا تو حیرت و رشک سے کھڑا رہ جاتا. یوں لگتا ہے کہ جب وہ دعا کرتا ہے تو اسکی ہاٹ لائن سیدھی رب العالمین سے منسلک ہو جاتی ہے.
وہ آنکھیں بند کیۓ ایک جگہ سمٹ کر ساکت بیٹھا، اپنے ہاتھ بلند کئے گم سم ،نہ جانے اپنے بنانے والے سےکیا سرگوشیاں کیۓ جاتا ؟ لوگ آتے، نماز پڑھتے اور چلے جاتے ، اسکے ارتکاز اور توجہ میں مجال ہے کہ کوئی فرق پڑ جاۓ ۔
مجھ سے نہ رہا گیا تو ایک دن میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ دعا کس اسلوب سے مانگتا ہے، کیا الفاظ استمعال کرتا ہے، کون سی خواہشوں کا تقاضہ کرتا ہے ؟
وہ پہلے ھچکچایا لیکن بار بار کے اصرار کے بعد آخراس نے مجھے اپنی پوری دعا سنائی. میں حیرت زدہ رہ گیا جب مجھے پتا چلا کہ میرے اس بھائی کی دعا کا ایک بہت بڑا حصہ کسی تقاضے یا مطالبے پر نہیں بلکے صرف خالص شکر پر مبنی ہے !
وہ ایک ایک نعمت جو اس کے ذہن میں آتی جاتی اسکا نام لیتا جاتا اور الله عزوجل کا شکریہ ادا کرتا جاتا. آج مجھے اس نوجوان لڑکے سے ایک بہت بڑی سیکھ ملی تھی اور وہ یہ کہ دعا صرف تقاضے کا نہیں بلکے ان بیشمار نعمتوں کے شکر کا بھی نام ہے جنہیں ہم اکثر اپنا حق سمجھ کر بیٹھے رہتے ہیں.
اپنے رب سے اپنی ضرورتوں یا خواہشوں کو مانگنا غلط نہیں ہے مگر اسکی عطا کردہ نعمتوں کا صدق دل سے شکر کرنا، ہمیں اپنے خالق سے ایک زندہ تعلق و محبت فراہم کرتا ہے، جو از خود ایک بہت بڑی عطا ہے.
لکھاری نامعلوم