سعودی عرب کا شمار دنیا کے آمرترین ممالک میں ہوتا ہےـ تیل ان کی 95% فیصد برآمدات اور %70 آمدن کا ذریعہ ہے جس نے سعودی عرب کوصحرا سے ایک آمرترین ملک بنادیا ہےـ مگر پھر بھی خواتین سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور مردوں کے ہاتھوں استحصال کی شکار ہوتے رہتی ہےـ
سعودی خاتون کو یونیورسٹی، کاروبار یا باہر سفر کرنے کیلئے اپنے مرد یا "guardian" سے اجازت لینا پڑھتا ہے ـ یہ قانون لازمی نہیں مگر سرکار اجازت مانے کی بازپرس کرتی ہے ـ خواتین کو سرعام مردوں کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں اور ان کےلئےہر جکہ الگ انتظام کیا جاتا ہےـ ان کو پورا جسم ڈھا نپنے کی ہدایت ہےجس سے ایتھلٹس کو بھی دقت پیش آتی ہےـ ہم سب کے سامنے Wajdan Shaherkani کی مثال موجود ہے جس کو سعودی حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد اجازت دی گئی ـ
خواتین کی خواندگی کی تعداد 70% فی صد جبکہ مردوں میں یہ تناسب 85% ہے کیونکہ خواتین کو شادی کے رشتے میں باندھ دیا جاتا ہےـ مرد اپنی بیویوں کو آسانی سے تلاق دےسکتے ہےجبکہ خواتین کومردوں کی رضامندی لینی پڑتی ہے ـ تلاق لینا اذیت ثابت ہونے پردی سکتی ہے مگر عدالت ایسے تشخص کو بہت کم سزا دیتی ہے ـ یہی وجہ ہے کہ گھریلوں تشددکے واقعات بہت کم سننے میں آتے ہےـ خوایتن کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں جوکہ پوری دنیا میں منفرد اور انوکھی روایات ہے2011 میں King Abdullah نے خواتین کو میونسپل الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی ـ مگر ووٹ ڈالنے کےلئے ان کو مرد سے اجازت لینی ہوگی ـ میں کسی اعتبار سے بھی سعودی معاشرے کو مکمل جانے کا دعوی نہیں کررہا ـ مگر ایک حد تک ان کے معاشرے سےآگاہی ضرور رکھتا ہوں
یہ بات قطعی طور پربھی حیران کن نہیں کہ 2012 کی Global Gender Gap Report میں سعودی عرب کو 135 میں سے131 نمبر پر شمار کیا گیامگر حیران کن بات یہ ہےکہ کئی ممالک اس فہرست میں شامل ہی نہیں مثلا افعانستان میں data کی عدم دستیابی خواتین میں پائے جانے والی خوف وحراس ہے ـ خوف کا یہ عالم ہے کہ خواتین مرد گھر سےباہر بھی نہیں نکل سکتی ـ کچھ دیہتی علاقوں میں خواتین مرد کے بغیر مارکیٹ نہیں جاسکتی ـ ان کو غیر مرد سے گفتگو کی اجازت نہیں ـ کچھ خواتین کو مردوں کو دیکھنے کی پاداش میں ان کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کی صورت میں سزادی گئی ـ ان کو اپنے جسم کے ذرا بھر حصے کوبھی نظر آنے کی اجازات نہیں جسی ان کوکئی بیماریاں بھی لگ جاتی ہے۔ بہتری آنے کے باوجود افغانستان میں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے۔ اسی طرح کاروبار اورپیشہ ور خواتین کی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔ افغانستان اختیاررکھنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور ان کو بھی بہت احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ اب بھی گھریلوں تشدد، زبردستی شادی اور تناظوں میں لڑکیوں کوبطور بیوی دینے کی روایات اب بھی قائم ہے۔ افسوس کے ساتھ آزادی اورخودمختیار جیسے تصورات اب بھی قوموں دور نظرآتےہے۔
افغان معاشرہ اور تمدن میں تبدیلی آنا ایک دن کی بات نہیں اور نہ ہی یہ تبدیلی خود ساختہ رونیا ہوسکتی ہےـ بیرونی سپورٹ اس ضمن میں اننہائی ضروری ہےـ کئی بیرونی کمپنیاں خواتین کی آزادی اور ترقی کے لئے کو شاں ہے تاکہ وہ بھی دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکے ـ اس میں سے ایک ادارہ Women Annex ہے جوکہ خواتین ڈائریکڑر کو اپنا کام دکھانے کیلئے پلیٹ فارم مہیا کرتی ہےـ اسکے علاوہ دنیا بھر کی خواتین کو اپنی زندگی سے متعلق کہانیاں شیئر کرنے کی ترغیب کرتا ہے اس کا مقصد ان خواتین کو آواز دیتا ہے جوکہ اذیت کا شکار ہوئی ـ اس ادارے کے مطابق ان کا مقصد وسطی اور جنوبی ایشاء میں ویڈیوز کی مدد سے خواتین کی آزادی کو فروغ دیتا ہے Women Annex ترقی پزیر ممالک میں مالی اعتبار سے خواتین کی آزادی کے لئے کو شاں ہےـ سوشل میڈیا خصوصا ترقی پزیر ممالک میں خواتین کی کارکردگی مردوں سے کافی بہتر ہےـ Women Annex کا مقصد سوشل میڈیا کے ذریعے افغان معاشرے میں تبدیلی اور خواتین کو مالی آزادی عطا کرنے کےلئےمصروف عمل ہےـ
سعودی عرب ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک ہےـ اس کے پاس اپنے ہر شہری کو آزادی اور روزگار دینے کےوسائل موجود ہےـ مگر پھر بھی خواتین کو اوجے درجے کی حیثیت حاصل ہےـ تبدیلی بہترین تعیلم کی بدولت ہیی ممکن ہوسکے گی مگر اب بھی ان کو انحیئرینگ صحافت، قانون جیسے شعبوں سے دور رکھا جارہا ہےـ جمہوری سوچ کے بغیر تبدیلی رونما ہونا ناممکن ہے ـ معشیت کے پروفیسر Mohammad Al-Qahtani کو بھی اس کی یاداش میں کئی نکالیف بھگتی پڑی ـ ہومن راتیٹس کے علم بردار ہونے کی وجہ ان کو غداری جیسے الزامات کا سامنا ہےـ سزاہونے کی صورت میں ان کو کئی سال جیل ہوسکتی ہےـ Al-Qahtani کے مطابق اس کی اصل وجہ ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہے ـ ان کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کارکنوں کوقید ، اور اذیت یا لاپتہ کردیتے ہے ـ کچھ دن قبل خواتین اور بچے اپنے رشتہ داروں کورہا کرنے کے لئے مظاہرہ کررہے تھے کے پولیس نے انہےگرفتار کردیا
سعودی عرب اپنے ہاتھ سنہری موقع گنوا رہے ہے ان کے حکمران اصلاحات کیلئے رہنمائی کا مظاہرہ کرنا چاہیےـ مگر وہ status quo کو ترجیح دیتے ہوئے نصف آبادی کو ان پڑھ رکھے ہوئے ہےـ ملک پوس عمارتوں اوربڑی بڑی کو ٹھیوں کے بنانے کے باوجود خواتین کواوجے درجے کی حثیت حاصل ہے اور جوکوئی بھی برابری اور ترقی کی بات کرتا ہے کو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہےـ ہرکسی کی آنکھ اور نظر اس وقت سعودی عرب پر لگی ہوئی ہےـ
Giacomo Cresti
http://www.filmannex.com/webtv/giacomo
follow me @ @giacomocresti76