محرم کا مہینہ آتے ہی اب اپنے سلفی حلقے میں بھی حسینیت اور یزیدیت کی بحث زور و شور سے چھڑ جاتی ہے. بعض جوشیلے مقررین نے اس معاملے میں اس قدر غلو اور افراط سے کام لیا ہے کہ ان کے اوپر نیم شیعیت کا گمان ہوتا ہے. اس سے قطع نظر کہ یزید کی شخصیت واقعی معنوں میں کیسی تھی اور واقعہ کربلا، فتنہ حرہ وغیرہ کے تعلق سے یزید بن معاویہ کو کس حد تک ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے، ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے اور کوئی صاحبِ نظر اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کے تعلق سے جو لوگ بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس کے بارے میں سب وشتم کو روا رکھتے ہیں ان کی زبانیں متعدد صحابہ کرام (حضرت امیر معاویہ، عمرو بن عاص، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم وغیرہم) کے بارے میں بھی احتیاط کا دامن چھوڑ دیتی ہیں یا کم از کم ان محترم شخصیات کے بارے میں دلوں میں کسی نہ کسی حد تک بدگمانی کو جنم دیتی ہیں.
یہ سارا معاملہ صرف اس وجہ سے ہے کہ محبتِ صحابہ یا محبتِ اہل بیت کے سلسلے میں ہمارے یہاں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کے بجائے افراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے. نہ تو محبتِ صحابہ سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم اہل بیت کے تعلق سے بدگمان ہو جائیں نہ ہی محبتِ اہل بیت بغضِ صحابہ کو مستلزم ہے. صحابہ اور اہل بیت دونوں کی محبت ہمارے ایمان وعقیدہ کا ایک حصہ ہے. اس معاملے کو حسینیت اور یزیدیت کے خانوں میں بانٹنا سراسر شیعی اصطلاح ہے. جس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی محبت اور احترام کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہمیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے معاذ اللہ کوئی بغض و عداوت ہے اسی طرح اگر کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر عدل وانصاف کی کسوٹی پر یزید بن معاویہ کا دفاع کرتا ہے اور شیعی پروپیگنڈے کی تردید کرتا ہے تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ اس کا دل محبت اہل بیت سے خالی ہے اور وہ یزیدیت اور ناصبیت کا علمبردار ہے.
(عبدالغفار سلفی، بنارس)