ایک مرتبہ میں جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاﺅن کے علاقے میں ریل گاڑی پر سفر کررھا تھا.. راستے میں ایک جگہ پہاڑی علاقے میں گاڑی رک گئی.. ھم نماز کیلئے نیچے اترے.. وھاں میں نے ایک انتہائی خوبصورت پتوں والا پودا دیکھا.. وہ پودا حسین و جمیل معلوم ھو رھا تھا.. بےاختیار دل چاھا کہ اس کے پتے توڑوں..
میں نے جیسے ھی پتے کو توڑنے کیلئے ھاتھ بڑھایا ' میرے رھنما ایک دم زور سے چیخ پڑے کہ "حضرت ! اسے ھاتھ مت لگائیے گا.."
میں نے پوچھا.. "کیوں..؟"
انہوں نے بتایا کہ یہ بہت زھریلی جھاڑی ھے.. اس کے پتے دیکھنے میں تو خوش نما ھیں لیکن یہ اتنا زھریلا ھے کہ اسے چھونے سے انسان کے جسم میں زھر چڑھ جاتا ھے اور جس طرح بچھو کے ڈسنے سے زھر کی لہریں اٹھتی ھیں اس طرح اسے چھونے سے بھی جسم میں زھر کی لہریں اٹھتی ھیں..
میں نے کہا.. "اﷲ کا شکر ھے کہ میں نے ھاتھ نہیں لگایا اور پہلے سے معلوم ھو گیا.. يہ تو بڑی خطرناک چیز ھے.." پھر میں نے ان سے کہا.. "یہ تو بڑا خطرناک معاملہ ھے.. آپ نے مجھے تو بتا دیا جس کی وجہ سے میں تو بچ گیا لیکن اگر کوئی انجان آدمی جا کر اسے ھاتھ لگائے تو وہ تو مصیبت اور تکلیف میں مبتلا ھو جائے گا.."
اس پر انہوں نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات بتائی.. وہ یہ کہ اﷲ تعالٰی کی قدرت کا عجیب کرشمہ ھے کہ جہاں کہیں یہ زھریلی جھاڑی ھوتی ھے اسی کی جڑ میں آس پاس لازماً ایک پودا اور ھوتا ھے.. لہٰزا اگر کسی شخص کا ھاتھ اس زھریلے پودے پر لگ جائے تو وہ فوراً اس دوسرے پودے کے پتے کو ھاتھ لگا دے.. اسی وقت اس کا زھر ختم ھو جائے گا.. چنانچہ انہوں نے اس کی جڑ میں وہ دوسرا پودا بھی دکھا دیا جو اس کا تریاق ھے..
بس یہی مثال ھمارے گناھوں اور توبہ کی ھے.. جہاں کہیں گناہ کا زھر چڑھ جائے تو فوراً توبہ و استغفار کا تریاق استعمال کرنا چاھیئے..!!
از.. مولانا محمد تقی عثمانی صاحب