والی لڑکی کو ان دنوں پھانسی ملنے کا خطرہ ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق چودہ سال کی عمر میں دلہن بننے والی اس لڑکی پر الزام ہے کہ اس نے سترہ سال کی عمر میں اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔ یہ بات ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت انسانی حقوق سے متعلق گروپوں نے بتائی ہے۔ایمنسٹی کے مطابق نو عمر ”راضیہ ابراہیمی“ جسے ”مریم“ کے نام سے جانا جاتا ہے کو سزائے موت سنانے کے بعد سزا پر عمل درآمد کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
اس لیے کسی بھی وقت پھانسی مل سکتی ہے۔مشرق وسطی کے لیے ہیومن رائیٹس واچ کے نائب اور شمالی افریقہ کے لیے اس ادارے کے ڈائریکٹر ”جوئے سٹارک “ کے مطابق '' ہر وقت کوئی نہ کوئی بچہ ایرانی عدلیہ سے سزائے موت پانے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق یہ ایرانی عدالت کی طرف سے قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حراست میں لیے جانے کے نو عمر دلہن نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔ وہ آجکل ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز کی جیل میں قید ہے، جہاں اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ہیومن رائیٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایرانی عدالت نے مریم کی طرف سے مقدمے کی از سر نو سماعت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔واضح رہے ایران کے سکیورٹی اداروں نے مریم کو 2010ئ میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے شوہر کو تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران میں عزت پر حملہ کرنے والے کو قتل کرنے والی نوجوان خاتون کی پھانسی کو آخری وقت پر 10 دن کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ چھبیس سالہ ریحانہ جباری پر الزام تھا کہ اس نے ایران کی وزارت انٹیلی جنس کے سابقہ ملازم مرتضی سربندی کو قتل کیا تھا اور عدالت نے 2009ءمیں اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سات سال کی قید کے بعد اسے پھانسی پر لٹکایا جانے والا تھا کہ یہ فیصلہ عارضی طور پر ملتوی کردیا گیا۔ خاتون کا موقف تھا کہ مقتول نے اسے نوکری کے بہانے گھر بلایا اور پھر اس کی عصمت دری کی کوشش کی جس پر اس نے عزت بچانے کیلئے اسے قتل کردیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقدمے کی کارروائی میں گہرے اور شدید نقائص کی نشاندہی کی تھی اور ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ ملزمہ سے خوفناک تشدد کے ذریعے مرضی کے بیان دلوائے گئے۔ جیل حکام نے ریحانہ کی والدہ کو اطلاع دی تھی کہ وہ اگلی صبح جیل پہنچ کر اپنی بیٹی کی میت وصول کرلے جبکہ اس نے خود بھی اپنی والدہ کو الوداعی کال کرکے خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ پھانسی کا ملتوی ہونا اچھی خبر ہے لیکن یہ التواءصرف 10 دن کیلئے ہے اور مقتول کے ورثاءکے معاف نہ کرنے کی صورت میں والی لڑکی کو ان دنوں پھانسی ملنے کا خطرہ ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق چودہ سال کی عمر میں دلہن بننے والی اس لڑکی پر الزام ہے کہ اس نے سترہ سال کی عمر میں اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔ یہ بات ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت انسانی حقوق سے متعلق گروپوں نے بتائی ہے۔ایمنسٹی کے مطابق نو عمر ”راضیہ ابراہیمی“ جسے ”مریم“ کے نام سے جانا جاتا ہے کو سزائے موت سنانے کے بعد سزا پر عمل درآمد کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
اس لیے کسی بھی وقت پھانسی مل سکتی ہے۔مشرق وسطی کے لیے ہیومن رائیٹس واچ کے نائب اور شمالی افریقہ کے لیے اس ادارے کے ڈائریکٹر ”جوئے سٹارک “ کے مطابق '' ہر وقت کوئی نہ کوئی بچہ ایرانی عدلیہ سے سزائے موت پانے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق یہ ایرانی عدالت کی طرف سے قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حراست میں لیے جانے کے نو عمر دلہن نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔ وہ آجکل ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز کی جیل میں قید ہے، جہاں اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ہیومن رائیٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایرانی عدالت نے مریم کی طرف سے مقدمے کی از سر نو سماعت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔واضح رہے ایران کے سکیورٹی اداروں نے مریم کو 2010ئ میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے شوہر کو تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران میں عزت پر حملہ کرنے والے کو قتل کرنے والی نوجوان خاتون کی پھانسی کو آخری وقت پر 10 دن کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ چھبیس سالہ ریحانہ جباری پر الزام تھا کہ اس نے ایران کی وزارت انٹیلی جنس کے سابقہ ملازم مرتضی سربندی کو قتل کیا تھا اور عدالت نے 2009ءمیں اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سات سال کی قید کے بعد اسے پھانسی پر لٹکایا جانے والا تھا کہ یہ فیصلہ عارضی طور پر ملتوی کردیا گیا۔ خاتون کا موقف تھا کہ مقتول نے اسے نوکری کے بہانے گھر بلایا اور پھر اس کی عصمت دری کی کوشش کی جس پر اس نے عزت بچانے کیلئے اسے قتل کردیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقدمے کی کارروائی میں گہرے اور شدید نقائص کی نشاندہی کی تھی اور ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ ملزمہ سے خوفناک تشدد کے ذریعے مرضی کے بیان دلوائے گئے۔ جیل حکام نے ریحانہ کی والدہ کو اطلاع دی تھی کہ وہ اگلی صبح جیل پہنچ کر اپنی بیٹی کی میت وصول کرلے جبکہ اس نے خود بھی اپنی والدہ کو الوداعی کال کرکے خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ پھانسی کا ملتوی ہونا اچھی خبر ہے لیکن یہ التواءصرف 10 دن کیلئے ہے اور مقتول کے ورثاءکے معاف نہ کرنے کی صورت میں والی لڑکی کو ان دنوں پھانسی ملنے کا خطرہ ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق چودہ سال کی عمر میں دلہن بننے والی اس لڑکی پر الزام ہے کہ اس نے سترہ سال کی عمر میں اپنے شوہر کو قتل کر دیا تھا۔ یہ بات ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت انسانی حقوق سے متعلق گروپوں نے بتائی ہے۔ایمنسٹی کے مطابق نو عمر ”راضیہ ابراہیمی“ جسے ”مریم“ کے نام سے جانا جاتا ہے کو سزائے موت سنانے کے بعد سزا پر عمل درآمد کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔
اس لیے کسی بھی وقت پھانسی مل سکتی ہے۔مشرق وسطی کے لیے ہیومن رائیٹس واچ کے نائب اور شمالی افریقہ کے لیے اس ادارے کے ڈائریکٹر ”جوئے سٹارک “ کے مطابق '' ہر وقت کوئی نہ کوئی بچہ ایرانی عدلیہ سے سزائے موت پانے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ ہیومن رائیٹس واچ کے مطابق یہ ایرانی عدالت کی طرف سے قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حراست میں لیے جانے کے نو عمر دلہن نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔ وہ آجکل ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز کی جیل میں قید ہے، جہاں اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جا سکتی ہے۔ہیومن رائیٹس واچ کا کہنا ہے کہ ایرانی عدالت نے مریم کی طرف سے مقدمے کی از سر نو سماعت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔واضح رہے ایران کے سکیورٹی اداروں نے مریم کو 2010ئ میں گرفتار کیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے شوہر کو تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) ایران میں عزت پر حملہ کرنے والے کو قتل کرنے والی نوجوان خاتون کی پھانسی کو آخری وقت پر 10 دن کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ چھبیس سالہ ریحانہ جباری پر الزام تھا کہ اس نے ایران کی وزارت انٹیلی جنس کے سابقہ ملازم مرتضی سربندی کو قتل کیا تھا اور عدالت نے 2009ءمیں اسے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ سات سال کی قید کے بعد اسے پھانسی پر لٹکایا جانے والا تھا کہ یہ فیصلہ عارضی طور پر ملتوی کردیا گیا۔ خاتون کا موقف تھا کہ مقتول نے اسے نوکری کے بہانے گھر بلایا اور پھر اس کی عصمت دری کی کوشش کی جس پر اس نے عزت بچانے کیلئے اسے قتل کردیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقدمے کی کارروائی میں گہرے اور شدید نقائص کی نشاندہی کی تھی اور ایسی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ ملزمہ سے خوفناک تشدد کے ذریعے مرضی کے بیان دلوائے گئے۔ جیل حکام نے ریحانہ کی والدہ کو اطلاع دی تھی کہ وہ اگلی صبح جیل پہنچ کر اپنی بیٹی کی میت وصول کرلے جبکہ اس نے خود بھی اپنی والدہ کو الوداعی کال کرکے خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ پھانسی کا ملتوی ہونا اچھی خبر ہے لیکن یہ التواءصرف 10 دن کیلئے ہے اور مقتول کے ورثاءکے معاف نہ کرنے کی صورت میں
now
Posted on at