وہ دیکھو جو کنٹینر پر کھڑا سب سے ممتاز نظر آرہا ہے ۔
یہی ہے وہ عظیم انسان ، جس نے اپنے آج کو تمہارے کل کےلئے قربان کردیا ہے
یہی ہے وہ عظیم انسان جس کی ماں کینسر کی وجہ سے مری تو اس نے عزم کیا کہ کسی اور کی ماں نہ مرے اور پھر اس عزم کی تکمیل کےلئے اس نے ہر ہر دروازہ کھٹکھٹایا ، بھیک مانگی ، خیرات جمع کی مگر اس غریب ملک کے غریب انسانوں کےلئے کینسر کا ہسپتال کھڑا کردیا۔
یہی ہے وہ عظیم انسان جس نے ارادہ کیا کہ اس ملک کے غریب کا بیٹا بھی آکفسورڈ کی تعلیم حاصل کرنے کا اہل بن جائے اور پھر اس نے در در جاکر دست سوال دراز کیا اور نمل یونیورسٹی قائم کردی۔
یہی ہے وہ عظیم انسان جس نے اس ملک کے مظلوم عوام کی خاطر اپنے بچوں سے دور رہنا گوارا کرلیا،
یہی ہے وہ عظیم انسان جو تمہاری جنگ لڑ رہا ہے تاکہ تم کل کسی کے غلام نہ رہو۔
یہی ہے وہ عظیم انسان جو گرمی سردی دھوپ اور موسموں کی نامہربانیوں کا ستم سہتے ہوئے اس کنٹینر پر پچھلے ستر دن سے کھڑا اپنی قوم کو پکار رہا ہے کہ اے میری قوم جاگ جائو اپنے حقوق پہچانو اور مزید ظلم سہنے سے انکار کردو۔
یہی ہے وہ عظیم انسان ہے کہ جب لوگ اس عمر تک پہنچ کر گھروں میں آرام کرتے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ دل بہلاتے ہیں ، مگر یہ انسان نظام کی تبدیلی کے سنگلاخ رستے پر تمہارے رستے کے کانٹے صاف کرنے کی غرض سے چل پڑا ہے ملک کے تمام فرعونون اس کے دشمن بن بیٹھے ہیں مگر یہ صرف اس بات پر خوش ہے کہ میری قوم جاگ رہی ہے،
سلیوٹ کرو اس عظیم انسان کو۔
oky
Posted on at