ایک سو پانچ ہجری میں بصرہ میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ نہ صرف محبت کےلطیف و نازک جذبات کو بھول گئےبلکہ ان کےسینےنفسانی خواہشوں کےہجوم سےبھر گئےتھی۔ وہ اپنےشکم کی آگ بجھانےکیلئےاپنےہم جنسوں کو ارزاں داموں پر فروخت کرنےلگی۔ اولادیں‘ ماں‘باپ پرگراں تھیں اور اولادوں پر ماں باپ ایک بوجھ تھی۔ بیویاں شوہروں کیلئےباعث آزار تھیں۔۔۔۔ اور بہنیں بھائیوں کیلئےایک مستقل عذاب بن چکی تھیں۔ خاندانی اورعلاقائی رشتوں کا تو ذکر ہی کیا‘ خونی رشتےبھی بےاعتبارہو چکےتھی۔ عجیب نفسانفسی کاعالم تھا۔ ماں باپ اولادوں سےہاتھ چھڑا رہےتھی۔۔۔۔ بھائیوں نےبہنوں سےمنہ پھیر لیا تھا اور دوست ایک دوسرےکوپہنچاننےسےگریزاں تھی۔ بھوک کاعفریت اپنا خونی دہن کھولےکھڑا تھا۔۔۔۔ اورتمام انسانی رشتی‘ احساسات و جذبات‘ عقائد و نظریات اس کی خوراک بنتےجارہےتھی۔
اسی ہولناک فضاءمیں بصرہ کےایک چھوٹےسےخاندان پر قیامت گزر گئی۔ یہاں چار بہنیں رہا کرتی تھیں جن کےماں باپ دنیا سےرخصت ہو گئےتھی۔ بظاہر کوئی نگراں اور کفیل نہیں تھا۔ یہ سب بہنیں مل کر محنت مزدوری کیاکرتی تھیں۔۔۔۔ مگر جب شہر بصرہ قحط کی لپیٹ میں آیا تو سارےکاروبار دم توڑ گئےاورمزدوریاں ختم ہو گئیں۔ نو عمر لڑکیوں نےدو تین فاقےتو برداشت کر لئےمگر جب بھوک حد سےگزری تو کسی کو اپنا ہوش نہ رہا۔ بھیک تک کی نوبت آگئی مگر کوئی کیسےبھیک دیتا کہ دینےوالےکےپاس خود کچھ نہیں تھا۔ یہ تمام بہنیں زرد چہروں اورپتھرائی ہوئی آنکھوں سےآسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں کہ بصرہ کامشہور تاجر عتیق ادھر سےگزرا۔ فاقہ زدہ بہنوں نےآسودہ حال شخص کےسامنےدست سوال دراز کر دیا۔
”خدا کیلئےہمیں کچھ کھانےکو دو۔ ورنہ کچھ دیر بعد ہماری سانسوں کا رشتہ ہمارےجسموں سےمنقطع ہو جائےگا۔“
تاجر عتیق نےسب سےچھوٹی بہن کی طرف دیکھا جو خاموش بیٹھی تھی۔ ”لڑکی! تجھےبھوک نہیں ہی۔“
”بہت بھوک ہی۔“ سب سےچھوٹی بہن نےنقاہت زدہ لہجےمیں جواب دیا۔ ”تو پھر کسی سےروٹی کیوں نہیں مانگتی؟“ تاجر نےسوال کیا۔
”جس سےمانگنا چاہئےاسی سےمانگ رہی ہوں۔“ لڑکی نےبڑا عجیب جواب دیا۔
”تو پھر تجھےابھی تک روٹی کیوں نہیں ملی؟“ تاجر عتیق نےحیران ہو کر دوسرا سوال کیا۔
گلدستہءاولیاء(part 1)
Posted on at