آج میرا مضمون ان آثار قدیمہ کے بارے میں ہے جو کہ پاکستان میں ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کو اللہ تعالیٰ نہایت ہی عظیم آثار قدیمہ کے نوازا ہے ۔بلکہ ان میں سے کچھ مہذب دنیا کی تاریخ کے لیے بہت اہم ہیں۔ پہلے ماضی میں یہ آثاریاتی خزانے نظر اندازی اور تہذیب سو زی کا شکار تھے لیکن حال ہی میں ان پر کام کیا گیا ہے اور ان میں بہت ذیادہ دلچسپی لی گئی ہے۔ ان قدیم جگہوں میں ذیادہ مشہور ٹیکسلا، مو ہنجو داڑو، ہڑپہ ، کوٹ ڈی جی، بھنبور، برہمن آباد، میر پور خاص، ٹھٹہ اور لاہور ہیں۔ یہ تمام جگہیں دنیا میں انفرادی حیثیت رکھنے والے آثار قدیمہ رکھتی ہیں۔ اب میں ان جگہوں میں سے جو ذیادہ مشہور ہیں ان کی مشہور ہونے کی وجہ بیان کرتا ہوں ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستا ن کا جانا پہچانا آثاریاتی مرکز ٹیکسلا ہے، جوراولپنڈی سے 30 میل دورجنوب مغرب میں ہےٹیکسلا کی اہمیت کی بنیادی وجہ اس حقیقت میں پو شیدہ ہے کہ یہ قدیم مذہب بدھ مت کا مرکز تھا۔ایک اور ٹیکسلا کی مشہوری کی وجہ اس کی سکندر اعظم اور اشوک کے ساتھ نسبت کی وجہ سے ہے، جو کہ بر صغیر میں قدامت کی ایک عظیم نشانی ہے۔ٹیکسلا میں چار مقامات ہیں جو کہ بدھ مذہب کا عظیم مرکز اور یونیورسٹی بن گئے تھے۔ جب 325 ق م میں سکندر اعظم آیا تو یہ پہلےہی کامیا ب شہر تھا ، ٹیکسلاپرانے دور میں غیر معمولی تبدیلیوں سے گزرا تھا۔ سکندر اعظم کے بعد یہاں چندر گپت نے انڈیا میں موریا سلطنت قائم کی اور اس کا پوتا اشوک (جس نے بعد میں ہندوستان میں بدھ مت قائم کی) وہاں چلا آیا۔ اور تیسرا جسے اب سرکپ کہتے ہیں ،سینھیا فاتحین نے قائم کیا جو موریا دور حکومت کے بعد آئے۔ اور نہایت ہی خاص خوبی جو ٹیکسلا میں دریافت کی گئی ہے وہ دنیا کے فنی خزانوں کو دی گئی امداد ہے یعنی گندھارا آرٹ جو بدھ مت آرٹ کا بحیرہ روم کے علاقے کے فن کے ساتھ ملاپ تھا جسے پہلے یونان اور پھر اٹلی نے متاثر کیا جس نے ایک قیمتی انداز پیدا کیا جو دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔گندھارا پشاور کے اردگرد علاقے کا نام تھا جو خاص طور پر کام کی وجہ سے بدھ مت کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ پہلی صدی عیسوی میں بدھ مت کے عالموں نے متن تیار کیے جو بدھ مت کے مجسموں اور علاقائی مقامات کی ملاپ سے تھا۔
دوسرا آثار قدیمہ کے اعتبار سے اہمیت کا حامل مقام مو ہنجو داڑو ہے۔ یہ شہرت میں اگر چہ ٹیکسلا سے کچھ کم ہے لیکن اس کی اہمیت بہت ذیادہ ہے۔ یہ سندھ میں سکھر سے 60 میل دور ہے۔ موہنجو داڑو کی مشہوری کی وجہ یہ ہے کہ یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں ایسے مقامات ہیں جو پانچ ہزار سال پہلے کی وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ بنتے ہیں۔ یہ دریافت حالیہ اور سر جان مارشل کی وجہ سے ہے۔ جس کی دلچسپی کی وجہ ہڑپہ میں دریافت ہونے والی کچھ مہریں تھیں جو کہ بظاہر تاریخ سے قبل کے زمانے کی تھیں۔ 1992ء میں انڈیا کے آثار قدیمہ کے ایک افسر نے اسی طرح کی مہریں دریافت کیں جو موہنجو داڑو میں کش دور کے ایک بدھ مت سٹوپا کی تحقیقات کر رہاتھا۔ اور اگلے سال مزید تحقیقات کی گئیں۔ نتائج کچھ غیر معمولی دلچسپی کے حامل نہیں تھے ۔ لیکن جان مارشل کو اپنے کام میں موجود شقوق پر یقین ہو گیا۔ اگلے سال اس کی اپنی ہدایات کی بدولت بہترین نتائج ملے۔ موہنجو داڑو کی دریافت کا ایک اہم ترین پہلو آ ریائی فاتحین سے قبل وادی سندھ میں ایک مستحکم تہذیب کی موجودگی کا یقین ہے اور یہ حقیقت بھی کہ اس وقت ایک سے ذیادہ نسلیں موجود تھیں۔کھوپڑی کی پیمائش چار مختلف نسلوں کی قسمیں ظاہر کرتی ہے جن میں سے ایک بحیرہ روم کے علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔کوہ الپس اور منگولیا نسل کی شناخت کی گئی ہے اور ابتدائی اسٹرالایئڈ گروپ کی بھی جو جنوبی اور وسطی انڈیا کی خاصیت ہے ۔یہ تمام واقعات بہت ہی دلچسپ قیاس کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ لیکن بیت سا کام کرنا ابھی باقی ہے۔