معروف انگریز مصنف سمرسٹ ماہم کا خیال ہے کہ مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کر لی ہے۔ مطالعہ کتب کے ذریے ہم عظیم قوموں اور بڑے لوگوں کے کارناموں سے آگاہ ہو تے ہیں اور اس طرح یہ چیز ہماری بصیرت میں اضافی کرتی ہے۔ مطالعہ کتب سے ہمارے خیالات وسیع ہوتے ہیں۔ علم میں اضافہ ہوتا ہے اور عقل و دانش کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ اصلاح اخلاق کا مؤثر ذریعہ ہے۔ کتاب ایک ایسی معلم ہے جو بلا معاوضہ اور بلاخوف وخطر انسان کو تعلیم کو دے کر اس کے ذہنی افق کو روشن اور وسیع کرتی ہے۔
کتاب کے اجتماعی اثرات کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ بعض کتابوں نے قوموں کی تقدیر بدل ڈالی۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں اور روشن مثال قرآن پاک کی ہے۔ اس کتاب مبین نے عرب کے جاہل اور اجڈ گواروں کو اپنے دور کی بہترین اور ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔ اس کتاب نے ان کے اندر وہ ہمت، جرات، بلند اخلاقی اور جہاں بینی پیدا کردی کہ قیصرو کسریٰ کے ایوان بھی لرز اتھے۔
قرآن پاک نے عرب کے باشندوں میں جوحیرت انگیز ذہنی انقلاب برپا کیا ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اندلس کے مسلمانوں نے علم اور کتاب کے بل بوتے پر ہی حیران کن ترقی کی۔ ان کے پاس بڑی بڑی عظیم الشان لائبریریاں موجود تھیں۔آج ہم ان کے ذوق کتب بینی پر حیران رہ جاتے ہیں یورپ میں نشاۃ ثانیہ ، عقلی علوم کی تحریک اور صنعتی اور سائنسی ترقی تمام تر کتاب کے مرہوں منت ہے۔ پریس کی ایجاد نے ہر شخص کو براہ راست مطالعہ کتب کا موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں یورپ نے بے پناہ ترقی کی اور پوری دنیا کا امام بن گیا۔ مختصر یہ کہ کتاب انسانی ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سے پڑھنے والوں میں ایک ذہنی تحریک جنم لیتی ہے۔ جوعملی تحریک بن کر کسی بڑے انقلاب کا باعث بنتی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے انقلابات مطالعہ کتب ہی کی پیداوار ہیں۔
مطالعہ کتب سے یہ تمام فوائد اسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں ، جب قاری کتابو ں کے انتخاب میں حسن ذوق سے کام لے۔ انتخاب کتب بڑا نازک مرحلہ ہے۔ جس طرح عمدہ کتابیں انسان کو رفعت کے ساتویں آسمان تک پہنچا سکتیں ہیں ، اسی طرح گھٹیاں کتابیں اسے پستی کے گہرے گھڑو ں میں دھکیل سکتیں ہیں۔ لہٰذا ہمیشہ مثبت طرز فکر اور تعمیری نقطہ نظر کی حامل کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان کے پیش کردہ حقائق مستند ہوں اور کتابوں کی زبان معیاری اور مواد اعلیٰ درجے کا ہو۔ فحش، مخرب اخلاق، جنسی ، عامیانہ اور پشت کتابوں کا مطالعہ خاص طور پر نوجوانوں کے لیے تباہ کن ہے۔ اس سے اجتباب لازمی ہے۔