part 2)وطن سے محبت اور اس کے لیے دی گئی قربانیاں

Posted on at


جنگ آزادی 1857ء کے شہیدوں لہو کی تاب و تب اسی نور سحر کے لیے تھی۔  مولانا عبید اللہ سندھی کے دل کی تڑپ بھی اس چنگاری کی تابانی کے لیے تھی۔  سر سید کی تگ و دو کا مرکز و محور بھی یہی تھا۔ مولانا محمد علی جوہر سے لے کر علامہ اقبال تک ۔ مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانی تک اور چودھری رحمت علی سے لے کر مولانا ظفر علی خان تک  کی کتنی عظمتیں ہیں جن کی نگاہوں کی تمنا اسی صدا لاالہ کی رفعت کے لیے وقف تھی اور پھر تاریخ کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ قائداعظم کی بے مثال قیادت نے ان خوابوں کو تعبیر عطا کی۔ اور اسی تعبیر میں رنگ بھرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنا خون دیا۔ اور گھر سے بے گھر ہوئے۔ ماؤں نے اپنے عزیز بیٹوں کو نذر کیا۔ ہزاروں عصمتوں کا نظرانہ دیا اور درندوں کی پیاس اپنے خون سے بجھائی۔یہ کیا تھا۔ کس لیے تھا مدعا کیا ماجرا کیا تھا!

؎ مجھے معلوم ہے یہ جز دو صرف الا الہ کیا تھا

 یہ ساری کاوشیں تھیں دین کی ایمان کی خاطر

ہزاروں کلفتیں تھیں ایک پاکستان کی خاطر

یہ مقصد تھا یہاں اسلام کا فرمان ہو جاری

مکمل طور پر اس ملک میں قرآن ہو جاری

 قیام پاکستان کے بعد اس امنانت کو سنبھالنا ہمارا کام تھا۔ مگر افسوس کہ ہم نے یہاں فرقہ بندی کا بازار گرم کیا۔ مذہب کو اتحاد کی بجائے اختلاف کا ذریعہ بنیایا۔ صوبائی تعصبات کو ہوا دی۔ اسلام کے جذبہ اخوت کی دھجیاں اڑائیں۔ یہاں تک کہ قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ کاش ہم قائداعظم کے اصولوں ایمان ، اتحاد اور تنظیم کو پیش نظر رکھتے تو ہمیں دل کی اس شکستگی کا ںظارہ نہ کرنا پڑتا۔

پاکستان نتیجہ تھا قائداعظم کے عزم صحیح اور یقین کام کا اوراس کی نتیجہ تھی ہماری کمزوری ایمان کا۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے قریبانوں میں جھانکیں۔ اپنی لغزشوں کا اعتراف کریں۔ اپنے اللہ کے سامنے گڑگڑائیں۔ اور اسی بارگاہ سے تائید مانگیں ۔ کیونکہ اس کی رحمت کے بغیر ہماری کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

 

ہم وطن عزیز کو اسی انداز سے بلند و بالا کر سکتے ہیں۔ کہ اس کے درو دیوار، شجر، حجر آثار یہاں تک کہ ذروں سے بھی ایمان سمجھ کر محبت کریں۔ اپنی تاریخ اور تہذیب سے اپنا رابطہ قائم رکھیں۔ اپنی روایات کو ہر لمحہ رو برو رکھیں۔ اور وطن کی مٹی کو عقیدت کے پلکوں سے چومتے رہیں۔ کہ اس کی بقاء کے ساتھ ہماری بقاء وابسطہ ہے۔  روح کی تازگی بھی اسی سے ہے۔  اور دل کی شگفتگی بھی اسی سے ہے۔

 ہماری تاریخ اور فکر و عمل کے یہ مادی مظاہر نہ ہوں تو شاید روحانی راحت بھی میسر نہ آسکے۔ اور اس وطن سے ہمیں اس لیے محبت کرنا ہے کہ ۔ کہ اس کی تاریخ کے حاشیوں پر ہمارے اسلاف کے لہو کی گلکاریاں ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ یہ عظیم الشان نظریے کا مادی مظہر ہے۔ جو ہماری نگاہوں کا نور اور دل کا سرور ہے۔ اور اس لیے بھی کہ اس کے ذرے ستاروں سے ذیادہ رخشاں اور چاند سے زیادہ حسین اور پھولوں سے زیادہ دل آویز ہیں۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160