پہلے تو ہم انگریز اور دوسرے غیر مسلموں پر فحاشی کے الشامات عائد کر کے اپنے دامن کے داغ دھونے اور اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ لیکن اب تو ہم انگریزوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے میدانوں میں ان کا مقابلہ ک تے لیکن ہم نے یہ مقابلہ فحاشی کے میدان میں کیا اور انگریز جیسی طاقت کو اس اکھاڑے میں چاروں شانے چت گرا میدان مار لیا اور اس مغرب ذدگی اور فیشن نے ہمارے ملک کے مسلمانوں سے وہ کام کروائے جس کو دیکھ کر شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ ہماری مشرقی عورتوں کے کالے لمبے بال ہی تھے جو ان کی نسوانی حسن کی ضیاء کو مزید تقویت دیتے تھے۔ اور جس کی طوالت کو اکثر شعراء سردی کی رات سے تشبیہہ دیتے تھے۔
؎تیری زلفاں کی طولانی کو دیکھے
مجھے لیل زمستان یاد آوے
لیکن جدیدیت اور مغرب پرستی کے شوق میں ہمارے ہاں کی خواتین نے ان بالوں کو کاٹ کر کاٹ کر اپنے حسن کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ خواتین کے بال تو چھوٹے ہو گئے لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ہمارے نوجوان اپنے بال بڑھا کر بڑھا کر اپنے صنف مقابل کا سر شرم سے جھکانے میں کامیاب ہوگئے ۔
اب پاکستانی ٹیلی ویژن بھی اکیسویں صدی کے تقاضے پورے کرنے کے شوق میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ ٹی وی ہمارے معاشرے کے بناؤ بگاڑ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن آج کل یہ صرف بگاڑ کا فریضہ احسن طریقے سے پورا کر رہا ہے۔ بچے ٹی وی پر کنڈوم کے اشتہار دیکھ کر والدین سے طرح طرح کےسوال کر ان کو شرم سے پانی کر رہے ہیں۔ جن کا جواب یقینی طور پر وہ نہیں دے سکتے ۔ مانا کہ بہبود آبادی ہمارے مفاد میں ہے اور اس سلسلے میں ہم امریکہ کے بتائے ہوئے تمام گر آزما رہے ہیں۔ لیکن اس قسم کے بے ہودہ اشتہار ٹی وی پر رکھا کر ہمارے بچوں کے ذہن سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔
فحش لٹریچر اور بازاروں میں بکنے والے سرعام عریاں رسالے الگ جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں جو ان ضمیر فروشوں اور دولت کے پجاریوں سے کم ازکم اتنا پوچھ سکے کہ آپ اپنے ملک اور اس میں بسنے والے معصوم مسلمانوں کو تباہ کرنے اور دین محمدؐ کے سپاہیوں کے اخلاقیات کو غارت کر کے اسلام اور پاکستان سے کس جنم کی دشمنی کا بدلہ لے رہے ہیں۔
ہمارے پیغمبر حضرت محمدؐ نے تو حیاء کو نصف ایمان قرار دے کر مسلمانوں کے لیے بے حیائی کو زہر قاتل قرار دیا ہے۔ لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی کریمؐ کی اس تعلیم کو بھلا کر بے حیائی کے لبادے اوڑھ کر اپنے آپ کو مٹانے کا خود سامان کر رہے ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور فحاشی اور عریانی کا قلع قمع کرنے کے لیے تدابیر اختیار نہیں کیں تو آنے والا کل ہماری تباہی و بربادی کا پیغام لائے گا۔
آئیے سب مل کر عہد کر لیں کہ ہم سب کو اس سوہنی دھرتی کے ماتھے سے فحاشی و عریانی کے یہ داغ دھونے ہونگے۔ تاکہ پاکستان ہمیشہ اقوام عالم میں چمکتا دمکتا رہے۔
اگر ہم اپنی نظر میں حیاء پیدا کریں اور دوسروں کی بہو بیٹیوں کو بری نظر سے دیکھنا چھوڑ دیں تو کل ہماری بیوی، بیٹی اور بہن کی عزت محفوظ رہے گی۔ اور اس طرح ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آجائے گا۔ اور دین و ملک دونوں کا بول بالا ہو گا۔ یہی ہماری عظمت ہے اور یہی ہماری ترقی اور روشن خیالی کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ صبع شام اپنی تقدیر بدلنے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ علامہ اقبال نے فرمایا ہے
؎نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبع و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیدیں